جہانِ کُہنہ کے مفلوُج فلسفہ دانو !
نظامِ نَو کے تقاضے سوال کرتے ہیں
یہ شاہراہیں اِسی واسطے بنی تھیں کیا؟
کہ اِن پہ دیس کی جنتا سِسک سِسک کے مَرے
زمیں نے کیا اِسی کارَن اناج اُ گلا تھا
کہ نسلِ آدم و حوّا ، بِلک بِلک کے مَرے
مِلیں اِسی لیے ریشم کے ڈھیر بُنتی ہیں
کہ دُخترانِ وطن تار تار کو...
وہ اِس ادا سے جو آئے ،تو یُوں بَھلا نہ لگے !
ہزار بار مِلو پھر بھی آشنا نہ لگے
کبھی وہ خاص عِنایت ، کہ سَو گُماں گُزریں
کبھی وہ طرزِ تغافُل کہ محرمانہ لگے
ناؔصر کاظمی
عتابِ اہلِ جہاں سب بُھُلا دِئے، لیکن
وہ زخم یاد ہیں اب تک، جو غائبانہ لگے
وہ رنگ دِل کو دِئے ہیں لہُو کی گردِش نے !
نظر اُٹھاؤں تو دُنیا نِگارخانہ لگے
ناصؔر کاظمی