غزل
مرزا اسداللہ خاں غا لؔب
بہت سہی غمِ گیتی، شراب کم کیا ہے؟
غلامِ ساقیِ کوثر ہُوں، مجھ کو غم کیا ہے!
تمھاری طرز و رَوِش جانتے ہیں ہم، کیا ہے
رقیب پر ہے اگر لُطف، تو سِتم کیا ہے؟
کٹے، تو شب کہَیں؛ کاٹے، تو سانپ کہلاوے
کوئی بتاؤ کہ، وہ زُلفِ خم بخم کیا ہے؟
لِکھا کرے کوئی، احکامِ طالعِ...
غزل
مرزا اسداللہ خاں غالبؔ
مُدّت ہُوئی ہے یار کو مہماں کئے ہُوئے
جوشِ قدح سے بزم چراغاں کئے ہُوئے
کرتا ہُوں جمع پھر ، جگرِ لخت لخت کو
عرصہ ہُوا ہے دعوتِ مژگاں کئے ہُوئے
پھر وضعِ احتیاط سے رُکنے لگا ہے دم
برسوں ہُوئے ہیں چاک گریباں کئے ہُوئے
پھر گرمِ نالہ ہائے شرر بار ہے نفَس
مُدّت ہُوئی ہے...
یہ کیا قہر ہے ہم پہ یارب کہ بے مے
گُزر جائے ساون کا یُوں ہی مہینہ
بہار آئی، سب شادماں ہیں مگر ہم
یہ دِن کیسے کاٹیں گے بے جام و مِینا
مولانا حسرت موہانی