غزلِ
ہر خواب کے مکاں کو مسمار کردِیا ہے
بہتر دِنوں کا آنا دشوار کردِیا ہے
وہ دشت ہو کہ بستی، سایہ سکوت کا ہے
جادُو اثر سُخن کو بیکار کردِیا ہے
گرد و نواحِ دِل میں خوف و ہراس اِتنا
پہلے کبھی نہیں تھا، اِس بار کردِیا ہے
کل اور ساتھ سب کے اُس پار ہم کھڑے تھے
اِک پَل میں ، ہم کو کِس نے اِس...
دلِ اِنساں، اگر شائستہ اسرار ہوجائے
لبِ خاموشِ فطرت ہی لبِ گفتار ہوجائے
یہ روز و شب ، یہ صبح و شام ، یہ بستی ، یہ ویرانہ
سبھی بیدار ہیں، انساں اگر بیدار ہو جائے
جگر مرادآبادی
غزل
بیقراری سی بیقراری ہے
دِن بھی بھاری ہے، رات بھاری ہے
زندگی کی بِساط پر اکثر
جیتی بازی بھی ہم نے ہاری ہے
توڑو دِل میرا ، شوق سے توڑو !
چیز میری نہیں تمھاری ہے
بارِ ہستی اُٹھا سکا نہ کوئی
یہ غمِ دِل! جہاں سے بھاری ہے
آنکھ سے چھُپ کے دِل میں بیٹھے ہو
ہائے! کیسی یہ پردہ داری ہے...
قریۂ جاں میں کوئی پھُول کھِلا نے آئے
وہ مرے دِل پہ نیا زخم لگانے آئے
اِسی کوچے میں کئی اُس کے شناسا بھی تو ہیں
وہ کسی اور سے ملنے کے بہانے آئے
واہ -
بہت خوب شیئرنگ :)
شہرِجنُوں میں کل تلک ، جو بھی تھا سب بدل گیا
مرنے کی خُو نہیں رہی، جینے کا ڈھب بدل گیا
پَل میں ہَوا مِٹا گئی، سارے نقوش نُور کے
دیکھا ذرا سی دیر میں منظرِ شب بدل گیا
شہریار
غزلِ
شہرِجنُوں میں کل تلک جو بھی تھا سب بدل گیا
مرنے کی خُو نہیں رہی جینے کا ڈھب بدل گیا
پَل میں ہَوا مِٹا گئی ، سارے نقوش نُور کے
دیکھا ذرا سی دیر میں، منظرِ شب بدل گیا
میری پُرانی عرض پر غور کیا نہ جائے گا
یُوں ہے، کہ اُس کی بزم میں طرزِ طلب بدل گیا
ساعتِ خُوب وصل کی، آنی تھی آنہیں...
مِلا ازل میں مجھے میری زندگی کے عِوَض
وہ ایک لمحۂ ہَستی کہ صَرفِ خواب ہُوا
وہ جلوہ مُفتِ نظر تھا، نظر کو کیا کہیے !
کہ پھر بھی ذوقِ تماشا، نہ کامیاب ہُوا
فانی بدایونی
غیر مُمکن ہے مجھے اُنس مُسلمانوں سے
بُوئے خُوں آتی ہے اِس قوم کے افسانوں سے
مجھ پہ کچُھ وجہ عتاب آپ کو اے جان نہیں!
نام ہی نام ہے، ورنہ میں مُسلمان نہیں
اکبر الٰہ آبادی