غزل
شفیق خلش
اُن کی طرف سے جب سے پیغام سے گئے
اپنے اِرادے سارے انجام سے گئے
اُلفت میں خوش رُخوں کی، خوش نام سے گئے
ہم جس جگہ گئے ہیں ، بدنام سے گئے
اظہارِ آرزو سے کُچھ کم غضب ہُوا
مِلنا مِلانا دُور اِک پیغام سے گئے
مِلتی ہے زندگی کو راحت خیال سے
حاصل وہ دِید کی ہم اِنعام سے گئے
جب سے...
بہت خوب شیئرنگ کاشفی صاحب
جب دل کے آستاں پر عشق آن کر پکارا
پردے سے یار بولا بیدلؔ کہاں ہے ہم میں
سوزِ نہاں میں کب کا وہ خاک ہو چکا ہے
اب دل کو ڈھونڈتے ہو، وہ دل کہاں ہے ہم میں
کیا کہنے
:)
غم غَلط کرنے کو احباب ہمَیں جانبِ باغ
لے گئے کل، تو عجب رنگِ گُلسِتاں دیکھا
وَرد میں خاصیتِ اخگرِ سوزاں پائی
نستَرن میں اثرِ خارِ مُغیلاں دیکھا
مُصطفٰی خان شیفتہ
غزلِ
نواب مُصطفٰی خاں شیفتہ
رات واں گُل کی طرح سے جسے خنداں دیکھا
صُبح بُلبُل کی روِش ہمدَمِ افغاں دیکھا
کوئی بے جان جہاں میں نہیں جیتا ،لیکن
تیرے مہجوُر کو جیتے ہُوئے بے جاں دیکھا
میں نے کیا جانیے کِس ذوق سے دی جاں دَمِ قتل
کہ بہت اُس سے سِتم گر کو پشیماں دیکھا
نہ ہُوا یہ کہ ، کبھی اپنے...
غزل
اب یہ مُمکن نہیں نِکلیں گے کبھی دام سے ہم
سب کہَیں عِشق کے ہونے پہ گئے کام سے ہم
کون کہتا ہے، ہیں بے کل غم و آلام سے ہم
جو تصوّر ہے تمھارا، تو ہیں آرام سے ہم
اب نہ یہ فکر کہ ہیں کون، کہاں پر ہم ہیں !
جانے جاتے ہیں اگر اب، تو دِئے نام سے ہم
یُوں نہ تجدیدِ تعلّق کا اب اِمکان رہا ...
غزل
زمیں کے حلقے سے نکلا ، تو چاند پچھتایا
کشش بچھانے لگا ہے ہر اگلا سیّارہ
میں پانیوں کی مُسافر ، وہ آسمانوں کا
کہاں سے ربط بڑھائیں ،کہ درمیاں ہے خلا
بچھڑتے وقت دِلوں کو اگرچہ دُکھ تو ہُوا
کُھلی فضا میں مگر سانس لینا اچھا ہو گا
جو صرف رُوح تھا ، فُرقت میں بھی وصال میں بھی
اُسے بدن کے اثر...