غزل
جو بس میں ہو تو فقط اس پہ وار دی جائے
تمام زندگی چھپ کر گزار دی جائے
یہ خود میں جھانکتے رہنا بہت عجیب ہے فعل
جو ہو سکے تو یہ عینک اتار دی جائے
وہ دیکھتا ہے جب اچھوں کو تو یہ دور نہیں
کہ مجھ غریب کی صورت سنوار دی جائے
جو اس کے چاہنے والے ہیں صرف اس کے ہیں
کہاں قبول جو دنیا ہزار دی جائے...