غزلِ
ہجر میں اُن کی ہُوا ایسا میں بیمار کہ بس
روزِ رحلت پہ کہَیں سب مِرے غمخوار کہ بس
خُوگرِ غم ہُوا اِتنا، کہ بُلانے پر بھی !
خود کہَیں مجھ سے اب اِس دہر کے آزار کہ بس
حالِ دِل کِس کو سُناؤں، کہ شُروعات ہی میں
کہہ اُٹھیں جو بھی بظاہر ہیں مِرے یار کہ بس
کیا زمانہ تھا دھڑکتے تھے بیک رنگ یہ...
غزلِ
حالت سے ہُوئے اِس کی بدنام نہ تم آئے
دینے دلِ مضطر کو آرام نہ تم آئے
جب وقت پڑا دِل پر کُچھ کام نہ تم آئے
تھی چارہ گری خاطر اِک شام نہ تم آئے
لاحق رہے اِس دِل کو اوہام نہ تم آئے
بِھجوائے کئی تم کو پیغام نہ تم آئے
افسوس تو کم ہوتا، گر ساتھ ذرا چلتے
تا عُمْر کے وعدے پر دو گام نہ تم...
وطن میں رہتے ہیں ہم، شرف یہ ہی کیا کم ہے
یہ کیا ضرور کہ آب و ہوا بھی راس آئے
یہ تیرا رنگِ سخن تیرا بانکپن، اے شاذ !
کہ شعر راس تو آئے انا بھی راس آئے
:):)
غزلِ
جل بھی چُکے پروانے، ہو بھی چُکی رُسوائی
اب خاک اُڑانے کو بیٹھے ہیں تماشائی
تاروں کی ضِیا دِل میں اِک آگ لگاتی ہے
آرام سے راتوں کو سوتے نہیں سودائی
راتوں کی اُداسی میں خاموش ہے دِل میرا
بے حِس ہیں تمنّائیں نیند آئی کہ موت آئی
اب دِل کو کسی کروَٹ آرام نہیں مِلتا
اِک عُمْر کا رونا ہے دو...
فانی صاحب کا مصرع ، اُس بَد گُماں کو مدِّ نظر اِمتحانِ داغ
یہاں صحیح منقول ہے، شکریہ اِستِفسار پر :) ۔ ٹائپو نہیں تو کوئی حوالہ
پر یہ کہ
مدِّ نظر کے معنیٰ ہیں: نگاہ کے پیش ، یا کوئی چیز"نگاہ کے سامنے"
یعنی مدِّ نظر میں " کے" شامل ہے ، " کے" کے ساتھ پھر " کے" کا استعمال درست نہیں
شیخ...
غزلِ
لب منزلِ فُغاں ہے، نہ پہلوُ مکانِ داغ
دِل ره گیا ہے نام کو باقی نشانِ داغ
اے عِشق! خاکِ دِل پہ ذرا مشقِ فِتنہ کر
پیدا کر اِس زمِیں سے کوئی آسمانِ داغ
دِل کُچھ نہ تها تمھاری نظر نے بنا دِیا
دُنیائے درد، عالَمِ حسرت، جہانِ داغ
پہلے اجَل کو رُخصتِ تلقینِ صبْر دے
پهر آخری نِگاہ سے...
غزلِ
دوستی اُن سے میری کب ٹھہری
اِک شناسائی تھی غضب ٹھہری
ساری دُنیا کے غم مِٹا ڈالے
یاد اُن کی بھی کیا عجب ٹھہری
حالِ دل خاک جانتے میرا
گفتگو بھی تو زیرِ لب ٹھہری
تِیرَگی وضْع کرگئی بدلے
اِک ملاقاتِ نِیم شب ٹھہری
دِل کے ہاتھوں رہے ہم آزردہ
اِک مُصیبت نہ بے سبب ٹھہری
کیا عِلاج...