غزلِ
کہنے کو ہر اِک بات کہی تیرے مُقابل
لیکن، وہ فسانہ جو مِرے دِل پہ رَقم ہے
محرُومی کا احساس مجھے کِس لِئے ہوتا
حاصِل ہے جو مجھ کو کہاں دُنیا کو بَہم ہے
یا تجھ سے بِچھڑنے کا نہیں حوصلہ مجھ میں
یا تیرے تغافل میں بھی اندازِ کرم ہے
تھوڑی سی جگہ مجھ کو بھی مِل جائے کہِیں پر
وحشت تِرے...
غزلِ
یوں بھی کچھ لوگ تھے محفل میں جو لائے نہ گئے
جب سُنا بھی کبھی آئے ہیں تو پائے نہ گئے
دوست احباب مُصیبت میں تو پائے نہ گئے
ہم اذیّت میں اکیلے گئے، سائے نہ گئے
راہ پر ہم سے کسی طور وہ لائے نہ گئے
کرکے وعدے جو مُلاقات کو پائے نہ گئے
اپنے معیار پہ ہم سے تو وہ لائے نہ گئے
گھر جو مرضی...
غزلِ
ابرُو تو دِکھا دیجیے شمشِیر سے پہلے
تقصِیر تو کُچھ ہو، مِری تعزِیر سے پہلے
معلوُم ہُوا اب مِری قِسمت میں نہیں تم
مِلنا تھا مجھے کاتبِ تقدِیر سے پہلے
اے دستِ جنُوں توڑ نہ دروازۂ زِنداں
میں پُوچھ تو لوُں پاؤں کی زنجیر سے پہلے
اچھّا ہُوا، آخر مِری قِسمت میں سِتم تھے
تم مِل گئے مجھ کو...