یہ نگاہِ قاتلِ روح و دل میں عجیب کچھ تو ضرور ہے!!!
مری لاش کے ہے قریب نعشِ رقیب ، کچھ تو ضرور ہے!!!
یہ محبتوں کے سمندروں کے جواہرات کی جستجو
ترے بحرِ عشق کا غوطہ زن اے حبیب! کچھ تو ضرور ہے
ارے بحرِ درد میں شعر کی یہ بحور ہم کو ملی نہیں
کہ مریضِ عشق نے پایا رنگِ ادیب کچھ تو ضرور ہے
ہمیں ہوش...