فنائے ہستی بعد، دید کی طلب میں رہ گئی
کہ زندگی مری ملن کی ہی تڑپ میں رہ گئی
ازل کے نوری آئنے کی جستجو میں زندگی
جنونِ عشق کے تڑپ میں اور کسک میں رہ گئی
خودی میں ہے چھُپی اُحد کی وہ نشانی، نور کے
وجود میں ڈھلی تو زندگی سبب میں رہ گئی
عجب زمانے کا چلن ، اسیر سب مکان کے
مری ہی روح لامکان کے...