وقت اُس حسیں کے پاس کچھ اتنا قلیل تھا
قصہ اک آہ میں بھی سمٹ کر طویل تھا
میں مے کدے کی راہ سے ہو کر نکل گیا
ورنہ سفر حیات کا کتنا طویل تھا
عبدالحمید عدم
دل نے دیکھی ہے تری زلف کے سر ہونے تک
وہ جو قطرے پہ گزرتی ہے، گہر ہونے تک
بھیڑ لگ جائےگی شیریں کی گلی میں فرہاد
لوگ بے بس ہیں ترے شہر بدر ہونے تک
زہر پی لیتا ہوں ، گر شہد بھرے ہونٹ ترے
میرے قبضے میں رہیں اس کا اثر ہونے تک
بعد اس کے کوئی تقریب نہیں ہے غم کی
آج تم پاس رہو میرے ، سحر ہونے تک...