بجز اپنے ‘ وہ لفظوں کے خزانے کھولتا کب تھا
وہ آنکھیں سوچتی کب تھیں‘وہ چہرہ بولتا کب تھا
اسے خود کو گنوانے کا ہنر بخشا ہے کس رُت نے
وہ اپنا عکس گہرے پانیوں میں گھولتا کب تھا۔۔
عجب ہیں ہم کسی کی سعئ لاحاصل پہ روتے ہیں
ابھی زندہ ہیں اور نا کامئ قاتل پہ روتے ہیں
بہت ہم کو رُلایا ماضی و امروز نے سو اب
نشاطِ گریہ ایسا ہے کہ مستقبل پہ روتے ہیں۔۔
جہاں بھی جانا تو آنکھوں میں خواب بھر لانا
یہ کیا کہ دل کو ہمیشہ اداس کر لانا !
میں برف برف رُتوں میں جلا تو اس نے کہا
پلٹ کر آنا تو کشتی میں دُھوپ بھر لانا۔۔۔