آپ کے ہاتھوں میں ہیں چاہے دھواں کر دیجیئے
چاہے منزل کیجیئے یا کارواں کر دیجیئے
سر پہ اتنی دھوپ تھی اب سائے بھی کھلنے لگے
ہو سکے تو کوئی دن بس سائباں کر دیجیئے
کوئی موزوں تر گھڑی کردیجیئے رخت ۔ سفر
پھر وہی لمحہ ہمیں معیاد ۔ جاں کر دیجیئے
اتنے ارزاں ہوگئے ہیں کوچہ ء وحشت میں ہم
اس خرابے میں...