You are using an out of date browser. It may not display this or other websites correctly.
You should upgrade or use an
alternative browser.
-
ہجر کے پیڑ سے جب یاد کا پھل گِرتا ہے
دل میں پھر درد کے انبار سے لگ جاتے ہیں
-
کسی کے قرب میں رہ کر ہری بھری ہوئی ہے
سہارے پیڑ کے یہ بیل جو کھڑی ہوئی ہے
-
میں نے جب پہلے پہل اپنا وطن چھوڑا تھا
دور تک مجھ کو اک آواز بلانے آئی
کیف بھوپالی
-
برا نہ مان، اگر یار کچھ برا کہہ دے
دلوں کے کھیل میں خودداریاں نہیں چلتیں
کیف بھوپالی
-
گل سے لپٹی ہوئی تتلی کو گرا کر دیکھو
آندھیو! تم نے درختوں کو گرایا ہو گا
کیف بھوپالی
-
تم سے مل کر اِملی میٹھی لگتی ہے
تم سے بچھڑ کر شہد بھی کھارا لگتا ہے
کیف بھوپالی
-
ہموار کھینچ کر، کبھی دشوار کھینچ کر
تنگ آچکا ہوں سانس لگاتار کھینچ کر
کیف بھوپالی
-
کبھی پتھر کے دل اے کیف! پگھلے ہیں، نہ پگھلیں گے
مناجاتوں سے، فریادوں سے، چیخوں سے، پکاروں سے
کیف بھوپالی
-
کبھی پتھر کے دل اے کیف پِگھلے ہیں، نہ پِگھلیں گے
مناجاتوں سے، فریادوں سے، چیخوں سے، پکاروں سے
کیف بھوپالی
-
کیف پردیس میں مت یاد کرو اپنا مکاں
اب کے بارش نے اسے توڑ گرایا ہو گا
کیف بھوپالی
-
کیف پردیس میں مت یاد کرو اپنا مکاں
اب کے بارش نے اسے توڑ گرایا ہو گا
کیف بھوپالی
-
شب کی پازیب سے الجھا ہوا تنہا گھنگرو
وصل کے گیت سناتا ہے تو ہم ناچتے ہیں
-
دیکھ! مت چھیڑ، چھلک جائے نہ پیمانۂ صبر
ہم زمانے کے رویوں سے بھرے بیٹھے ہیں
-
میں نے غمِ حیات میں تجھ کو بھلا دیا
حسن وفا شعار، بہت بے وفا ہوں میں
-
حیران ہوں کہ اِک بھی گواہی نہ مل سکی
حالانکہ ایک ہجوم میں مارا گیا مجھے
-
بہت ہی کم نظر آیا مجھے اخلاص لوگوں میں
یہ دولت بٹ گئی شاید بہت ہی خاص لوگوں میں
-
آ، کہیں ملتے ہیں ہم، تا کہ بہاریں آ جائیں
اس سے پہلے کہ تعلق میں دراڑیں آ جائیں
-
کتنے ہی درد بہانے سے مِرے پاس آ کر
دیکھتے ہیں کہ مِری شام سہانی تو نہیں
-
یہ عاشقی ہے، یہاں پر جنون لازم ہے
سکون چاہیے جس کو وہ اعتکاف کرے
-
خدارا! کیجیے رابطہ، کہ اب تو لوگ
بالوں میں سفیدی کا سبب پوچھتے ہیں