یا خُدا کچھ آج ایسا رحم مجھ پہ کرجائیں!
شفیق خلش
یا خُدا کچھ آج ایسا رحم مجھ پہ کر جائیں
اپنے اِک تبسّم سے زخْم میرے بھرجائیں
ہو کوئی کرشمہ اب، جس کی مہربانی سے
ساتھ اپنے وہ ہولیں، یا ہم اُن کے گھرجائیں
دُور ہو سیاہی بھی وقت کی یہ لائی سی
اپنی خوش نوائی سے روشنی جو کرجائیں
روشنی مُدام...
غزلِ
شفیق خلش
دِل میں ہجرت کے نہیں آج تو کل ہوں گے خلش
زخم ہوں گے کبھی لمحے، کئی پَل ہوں گے خلش
بے اثر تیرے کِیے سارے عمل، ہوں گے خلش
جو نہیں آج، یہ اندیشہ ہے کل ہوں گے خلش
زندگی بھر کے لئے روگ سا بن جائیں گے!
گرنہ فوراّ ہی خوش اسلوبی سے حل ہوں گے خلش
کارگر اُن پہ عملِ راست بھی ہوگا...
غزلِ
شفیق خلش
مِری حیات پہ حق تجھ کو ہے صنم کِتنا
ہے دسترس میں خوشی کتنی اور الم کِتنا
دُھواں دُھواں سا مِرے جسم میں ہے دَم کِتنا
کروں گا پیرَہن اشکوں سے اپنے نم کِتنا
کبھی تو رحم بھی آئے مچلتے ارماں پر !
خیال و خواب میں رکھّوں تجھے صنم کِتنا
گلو خلاصی مِری ہو بھی پائے گی، کہ نہیں
رہے گا...
گُماں یہ تھا کہ پسِ کوہ بستیاں ہوں گی
وہاں گئے تو مزاراتِ بے نِشاں نِکلے
اُفق سے پہلے تو دُھندلا سا اِک غُبار اٹّھا
پھر اُس کے بعد سِتاروں کے کارواں نِکلے
کیا کہنے :)