غزل
(نواز دیوبندی)
وہاں کیسے کوئی دیا جلے، جہاں دور تک بھی ہوا نہ ہو
اُنہیں حالِ دل نہ سنائیے، جنہیں دردِ دل کا پتا نہ ہو
ہوں عجب طرح کی شکایتیں، ہوں عجب طرح کی عنایتیں
تجھے مجھ سے شکوے ہزار ہوں، مجھے تجھ سے کوئی گلا نہ ہو
کوئی ایسا شعر بھی دے خدا، جو تیری عطا ہو تیری عطا
کبھی جیسا میں نے کہا...
جو بے قابو ہوں اُن پر وہ قابو بھیج دیتا ہے
وطن کو کوئی خطرہ ہو تو ٹیپو بھیج دیتا ہے
نہ گھبراؤ اندھیروں سے، اندھیری رات کا مالک
مسافر حوصلہ رکھیں تو جگنو بھیج دیتا ہے
(نواز دیوبندی)
یہ زندگی عجب انداز سے گزرنے لگی
بچھڑ گئی جو میں تجھ سے تو روز مرنے لگی
اسی کو پیار، اسی کو جنون کہتے ہیں
کہ تیری یاد بھی آئی تو میں سنورنے لگی
وہ آفتاب کی مانند ہورہا تھا غروب
سیاہ رات میری روح میں اُترنے لگی
(شائستہ ثنا)
موت منظور ہے زندگی کے لیئے
جان حاضر ہے تیری خوشی کے لیئے
گلشنِ زیست سے وادیء موت تک
ہیں کئی امتحاں آدمی کے لیئے
جس نے مجھ کو غموں کے حوالے کیا
کر رہی ہوں دعائیں اُسی کے لیئے
زندگی سے جُدا ہونا آساں نہیں
حوصلہ چاہیئے خودکُشی کے لیئے
(شیاما سنگھ صبا)
غزل
(شیاما سنگھ صبا)
موت منظور ہے زندگی کے لیئے
جان حاضر ہے تیری خوشی کے لیئے
گلشنِ زیست سے وادیء موت تک
ہیں کئی امتحاں آدمی کے لیئے
جس نے مجھ کو غموں کے حوالے کیا
کر رہی ہوں دعائیں اُسی کے لیئے
زندگی سے جُدا ہونا آساں نہیں
حوصلہ چاہیئے خودکُشی کے لیئے
غزل
(شیاما سنگھ صبا)
کسی کی آنکھ میں پانی نہیں ہے
مگر لوگوں کو حیرانی نہیں ہے
فنا ہونا ہے سب کو ایک نہ ایک دن
یہاں پر کوئی لافانی نہیں ہے
بچاتا ہے بلا سے کون مجھ کو
اگر تیری نگہبانی نہیں ہے
خدا کو چھوڑ کر اوروں سے مانگوں؟
کوئی اتنا بڑا دانی نہیں ہے
ابھی دل میں تصوّر ہے تمہارا
ابھی اس گھر میں...