شاکی کچھ اس لئے بھی نہیں ھم نصیب کے
محفوظ بام و در بھی کہاں ھیں رقیب کے
دل کا دیا جلایا تو تنہائیاں بڑھیں
کچھ اور دور ھو گئے سائے قریب کے
کیا اپنے حرف سادہ کو خاطر میں لائے وہ
بیٹھا ھے جو سمجھ کے اشارے رقیب کے
بیمار عشق چل دیا حسرت لئے ھوئے
کتنے نرالے ھوتے ھیں درماں طبیب کے
اس شمع رو کے قرب...