بے خودی لے اڑی حواس کہیں
ہے کوئی دل کے آس پاس کہیں
حسن جلوہ دکھا گیا اپنا
عشق بیٹھا رہا اداس کہیں
ہم بعید و قریب ڈھونڈ چکے
وہ کہیں دور ہے نہ پاس کہیں
صبر ہی آئے، اب قرار تو کیا
ٹوٹ ہی جائے دل کی آس کہیں
سیف، خونِ جگر پڑا پینا
ایسے بجھتی ہے دل کی پیاس کہیں