فروری 1890 میں بشیر باغ محل میں سر آسمان جاہ اور ان کے مہمان۔ راجا دین دیال کی تصاویر سے بھارت میں فوٹو گرافی کے سفرنامے کا پتا چلتا ہے اور یہ بھی کہ فوٹو گرافی کی عالمی تاریخ سے ان کے کام کو الگ کرنا مشکل ہے۔
حیدرآباد کے نظام محبوب علی خان اور ان کی شکار پارٹی شیر کی كھالوں کے ساتھ شکار کیمپ میں (اپریل - مئی 1899)۔ راجا دین دیال پر آنے والی کتاب کی اس سیریز میں اس وقت بھارت کے ہر طبقے کی تصاویر کو جگہ دی گئی ہے۔
ہزار ستون والا ہنمكونڈا کا مندر (دسمبر 1887 - فروری 1888)۔ راجا دین دیال کی پوری ٹیم نے فن تعمیر کی اہم عمارتوں، قدرتی مناظر اور بھارت کے ماضی میں اہم کردار ادا کرنے والے لوگوں کی 30 ہزار سے زیادہ تصاویر کو جمع کیا ہے۔
یہ گوالیار میں درگ کا صدر دروازہ (1878) ہے۔ اپنے کیریئر میں راجا دین دیال نے بھارت کے اندور، سکندرآباد اور بمبئی جیسے شہروں میں سٹوڈیو قائم کیے۔ ان کے لیے 50 سے زیادہ فوٹوگرافروں اور معاونین کی ٹیم کام کرتی تھی۔
اکبر کی بیٹی شكر النسا کا سکندرا میں مقبرہ (1886-87). ’القاضی کلکشن آف فوٹوگرافی‘ میں محفوظ ہے۔ ان تصاویر کا پہلی بار گہرائی سے مطالعہ کیا گیا اور اب اسے ایک کتاب کی شکل دی جا رہی ہے۔
یہ تصویر نظام حیدرآباد میر محبوب علی خان (1887-88) کی ہے۔ اسے اپنے کیمرے میں قید کرنے والے راجا دین دیال (1844-1905) ہیں۔ وہ برصغیر کے مشہور ترین فوٹوگرافروں میں شمار کیے جاتے ہیں۔
بہ شکریہ بی بی سی اردو
بڑھتا ہوا خوف اور بدھ اور ملک کی مسلمان اقلیت کے درمیان پائے جانے والے عدم اعتماد کے نتیجے میں ملک کے سیاسی ماحول کے متاثر ہونے کا اندیشہ ہے۔ دو سال قبل ہی ملک میں جمہوری حکومت برسراقتدار آئی ہے۔
رخائن ریاست میں ہونے والے فسادات بدھ اور روہنگیا مسلمانوں کے درمیان ہوئے تھے جنہیں برما کے شہری تسلیم نہیں کیا جاتا ہے۔ ان واقعات کے بعد سے لاکھوں افراد ان تشدد کے واقعات سے بچنے کے لیے وطن ترک کر گئے ہیں۔