وارداتِ دل سے تنگ آکر گزشتہ رات اک
ان کی یادوں کی بٹھائی ہم نے شوریٰ مستقل
ان کے انکاروں کی آوازیں متاعِ جان ہیں
شکر کرتا ہے سدا عبداً شکورا مستقل
اک غزل کافی نہیں ہے ان پہ لکھنے کے لیے
اس میں تو بن جائے گا دیوان پورا مستقل
بس اسی میں استقامت ہم نے پائی ہے سدا
ہر عمل ہم چھوڑ دیتے ہیں...