راہوں میں تری طُور کے آثار ملے ہیں
ذروں کے جگر مطلع انوار ملے ہیں
تاروں میں ترے حسنِ تبسم کی ضیاء ہے
پھولوں کی مہک میں ترے آثار ملے ہیں
معراج کی شب سرحدِ امکاں سے بھی آگے
نقشِ قدمِ احمد مختار ملے ہیں
جو ذات الہی کی تجلی سے نہ جھپکے
ہاں آپ کو وہ دیدہ بیدار ملے ہیں
جو دل کہ تیرے پیار کی لذت...