وقت نکلا جائے ہے تدبیر سے
اب گلہ ہو بھی تو کیا تقدیر سے
خون کب تک زخم سے جاری رہے
لوگ مرہم رکھ چکے شمشیر سے
خواب دیکهوں میں بہار شوق کا
مت مچا تو شور اب زنجیر سے
سب پرانے زخم جو بھا اور گئے
لطف کیا ہو شوخیِ تحریر سے
سب تمنائیں ہوئیں اب نورؔ ختم
مت ڈراہمدم مجھے تو تقدیر سے
بہت وقت گزرنے کے...