غزلِ
حفیظ ہوشیار پوری
پھر سے آرائشِ ہستی کے جو ساماں ہوں گے
تیرے جلووں ہی سے آباد شبستاں ہوں گے
عشق کی منزلِ اوّل پہ ٹھہرنے والو !
اِس سے آگے بھی کئی دشت و بیاباں ہوں گے
تو جہاں جائے گی غارت گرِ ہستی بن کر !
ہم بھی اب ساتھ تِرے گردشِ دوراں ہوں گے
کِس قدر سخت ہے، یہ ترک و طلب کی منزل...
ذکرِ آگ جلائے رکھنے پر، یاد آیا کہ مقتول امریکی صدر جان ایف کینیڈی
کی قبر پر بھی ہر وقت کسی چراغ کے لو کی طرح آگ جلتی رہتی ہے
جب سے روشن کی گئی ہے تب سے جل رہی ہے
مجھے نہیں معلوم تھا کے آگ کے پُجاری آگ ہر وقت جلائے رکھتے ہیں
آپ سے پتہ چلا ۔
تشکّر خلیل بھائی اظہارِ خیال پر ۔
صائمہ شاہ صاحبہ نے اس غزل کا اک شعر، پسندیدہ اشعار
میں پیش کیا جو بہت ہی خوب لگا تو غزل تلاش کرکے پیش کردی :)
خوشی ہوئی جو آپ صاحبان کو غزل پسند آئی
بہت خوش رہیں :)
غزلِ
حفیظ ہوشیار پوری
راز سربستہ محبّت کے، زباں تک پہنچے
بات بڑھ کر یہ خُدا جانے کہاں تک پہنچے
کیا تصرّف ہے تِرے حُسن کا، اللہ الله
جلوے آنکھوں سے، اُترکردِل وجاں تک پہنچے
تیری منزل پہ پہنچنا کوئی آسان نہ تھا
سرحدِ عقل سے گزُرے تو یہاں تک پنچے
حیرتِ عشق مِری، حُسن کا آئینہ ہے
دیکھنے...
غزلِ
ہوش جونپوری
اِتنا پیچھے نہ پڑا تھا دلِ ناداں پہلے
یُوں نہ تھا دُشمنِ جاں، دُشمنِ اِیماں پہلے
پہلے وہ آتے، شراب آتی، کوئی ساز آتا
تو کہاں آن مَرِی گردشِ دوراں پہلے
کچُھ تِری شوخ نِگاہوں کا اِشارہ ہے ضرور
اِتنا گُستاخ نہ تھا وصْل کا ارماں پہلے
تیری زُلفوں نے مِرے دِل کی ادائیں لے لیں...
دل رشکِ عدو سے نہ کبھی پائے گا فرصت !
قسمت میں یہ لِکھّا ہے کہ ،جلتا ہی رہے گا
ظالم کو یہی شغل، یہی کام مِلا ہے
چُٹکی سے دلِ زار مسلتا ہی رہے گا
غلام یاسین آہ