غزلِ
شفیق خلش
آئیں اگر وہ یاد تو مرتے نہیں ہیں ہم
حالت خراب دل کی، گو کرتے کہیں ہیں کم
دل خُون ہے اگرچہ شب و روز ہجر میں
آنکھوں کو اپنی، شرم سے کرتے نہیں ہیں نم
ایسا جلادیا ہمیں فُرقت کی دُھوپ نے
کوشش رہے ہزار نِکھرتے کہیں ہیں ہم
اک پل نہ ہوں گوارہ کسی طور یوں ہمیں
دل پر سوار ہو کے...
لیجئے ایک اور بات کہ، کیا آپ کو معلوم ہے کہ غبارہ کو انڈیا کے بہت سے
علاقوں میں " پھونکنا " کہا جاتا ہے، شاید سندھ میں بھی یہی پکارا جاتا ہے
سیاست کی طرف ذہن نہیں گیا آپ کی بات درست ہے ، کہ موضوع چاہیے ہمارے لوگوں کو
کیا آپ نے واقعی سنجیدہ ہیں،
ریسرچ ضروری ہے اِس پر تب ہی صحیح یا درست اعداد و شمار اکٹھا ہو سکتے ہیں
یہاں تو سلنڈر سے ہی بھرتے ہیں اس کے لئے تو انڈیا ، پاکستان سے مدد لینی پڑے گی
بھرتے بھرتے عمر کا پیمانہ آخر بھر گیا
رہ گیا افسوس باقی، مرنے والا مر گیا
چل دیا تُو، دِل میں تیری یاد باقی رہ گئی
اِس شکستہ ساز میں فریاد باقی رہ گئی
چار دن کی چاندنی ہے پھراندھیری رات ہے
ہے اگر قائم ہمیشہ تو اُسی کی ذات ہے
تشکّر شیئر کرنے پر
بہت خوش رہیں :)
تشکّر اظہار خیال اور پذیرائی انتخاب پر
آپ صحیح کہ رہے ہیں، مہدی حسن صاحب کی کیا بات ہو
کئی شعراء کے کلام کو دوام بخشا ان کی آواز اور انداز گائیکی نے
بہت خوش رہیں صاحب !:)
سحر ہُوئی بھی تو اُس کو یقیں نہ آئے گا
جو بد نصیب اُمیدِ سحر سے گُذرا ہے
حَرَم ہو، دِیر ہو، راہیں ہیں ایک منزل کی
کوئی اِدھر سے تو کوئی اُ دھر سےگُذرا ہے
حفیظ ہوشیارپوری
غزلِ
حفیظ ہوشیار پوری
محبّت کرنے والے کم نہ ہوں گے !
تیری محفل میں لیکن ہم نہ ہوں گے
میں اکثر سوچتا ہوں پُھول کب تک
شریک گریۂ شبنم نہ ہوں گے
ذرا دیر آشنا چشم کرم ہے !
سِتم ہی عشق میں پیہم نہ ہوں گے
دِلوں کی اُلجھنیں بڑھتی رہیں گی !
اگر کچھ مشورے باہم نہ ہوں گے
زمانے بھر کے غم یا اِک تیرا غم...