بدلا نہ کِسی غم سے تِرے ہجر کا غم بھی
کیا کچُھ نہ توقّع میں اُٹھا لائے ہیں ہم بھی
دم توڑ چُکی دل میں، تِری دید کی خواہش
رُکنے کو کِسی پل ہے تِرے ہجر سے دم بھی
شفیق خلش
اُسے لُبھا نہ سکا، میرے بعد کا موسم !
بہت اُداس لگا خال و خد سنوار کے بھی
اَب ایک پَل کا تغافُل بھی سہہ نہیں سکتے
ہم اہلِ دل، کبھی عادی تھے اِنتظار کے بھی
محسن نقوی
اجنبی شہر کے اجنبی راستے، میری تنہائی پر مُسکراتے رہے !
اجنبی شہر کے اجنبی راستے، میری تنہائی پر مُسکراتے رہے
میں بہت دیرتک یونہی چلتا رہا، تم بہت دیر تک یاد آتے رہے
زہر مِلتا رہا، زہر پیتے رہے، روز مرتے رہے، روز جیتے رہے
زندگی بھی ہمیں آزماتی رہی، اور ہم بھی اسے آزماتے رہے
زخم جب بھی...
جناب سعود صاحب! ہماری طرف سے بہت سی دعائیں اور مبارکباد قبول فرمائیں۔
اللہ تعالٰی آپ کو زندگی میں، ہر پیش آید امتحان میں کامران و کامیاب رکھے
الله تبارک تعالیٰ آپ پر ہمیشہ علم اور فراست کے دریچے وا رکھے اور
اس میدانِ علم و ہنر میں، کامیابیاں ہی کامیابیاں عطا فرمائے۔
اور آپ کی ذات کو...
غزلِ
قمرجلالوی
ختم ، شب قصّہ مختصر نہ ہوئی
شمع گُل ہو گئی، سحر نہ ہوئی
روئِی شبنم، جَلا جو گھر میرا
پُھول کی کم، مگر ہنسی نہ ہوئی
حشر میں بھی وہ کیا مِلیں گے ہمیں
جب مُلاقات عُمر بھر نہ ہوئی
آئینہ دیکھ کے، یہ کیجے شُکر !
آپ کو، آپ کی نظر نہ ہوئی
سب تھے محفِل میں اُنکے محوِ جَمال...
فسانہ کہہ رہے ہیں آج، وہ اپنی محبّت کا
خُدا ایسا کرے، میرا کہیں پر نام آجائے
قمراِک دن سفرمیں، خود ہلال عید بن جاؤں
اگر قبضے میں میرے گردشِ ایّام آجائے
قمرجلالوی
زندگی، کرتی ہی رہتی ہے مُصیبت پیدا
با خُدا اُس میں بھی کرلیتے ہیں لذّت پیدا
دل میں وہ رنگِ محبّت کو جگہ دیتے ہیں !
جس سے ہوجاتی ہے، تلخی میں حَلاوت پیدا
خلق، صُورت میں ہی کرتی ہے معانی کی تلاش !
وہ معانی سے بھی کرلیتے ہیں، صُورت پیدا
اکبرالٰہ آبادی
اب آنکھ اُٹھانا ہے اِیمان کی بربادی
اُس بُت کی نظر دیکھی اور اُس کا اثر دیکھا
تقدیر مُخالِف تھی، تدبیر ہُوئی قاصر !
مُمکن تھا جو کچُھ ہم سے، سب ہم نے وہ کردیکھا
اکبرالٰہ آبادی
کتنی طویل ہوتی ہے اِنساں کی زندگی !
سمجھا ہُوں آج، میں شبِ فرقت گزار کے
میّت قمر کی دیکھ کے، بولے وہ صبحِ ہجر
تارے گِنے گئے نہ شبِ انتظار کے
قمر جلالوی
ہلکی پُھلکی شاعری میں گہری وزنی باتیں اکبر الہ آبادی کا ہی خاصہ تھیں۔
ان کی شاعری لطیف اور خوب الفاظ میں کہیں چوٹ، کہیں مشاہدہ کی صورت ہی رہی،
جو اک آگ چڑھی دیگچی کی بھاپ کے طرح فضا میں گرمی اور بُو
بکھیرتی رہی تھی، اور حواسِ خمسہ خُوب رکھنے والوں کو کبھی گراں اور کبھی محبوب تھیں
ہم اگر غور...
دل مِرا جس سے بہلتا، کوئی ایسا نہ مِلا
بُت کے بندے مِلے ، الله کا بندہ نہ مِلا
بزمِ یاراں سے پھری بادِ بہاری مایوس
ایک سر بھی اِسے آمادۂ سودا نہ مِلا
ہوشیاروں میں تو اک اک سے سوا ہیں اکبر
مجھ کو دیوانوں میں لیکن کوئی تجھ سا نہ مِلا
اکبرالٰہ آبادی
ساری دُنیا سے انوکھی ہے، زمانے سے جُدا
نعمتِ خاص ہے، الله رے قِسمت میر ی
شکوۂ ہجر پہ سر کاٹ کے فرماتے ہیں
پھر کروگے کبھی، اِس منہ سے شکایت میری
فانی بدایونی
اِس کو اُمّید نہیں ہے کبھی پھر بسنے کی !
اور وِیرانوں سے، اِس دل کا ہے وِیرانہ جُدا
گوشۂ چشم میں بھی مردمِ بد بِیں ہیں حَسَن
واسطے اُس کے بنا، دل میں نہاں خانہ جُدا
میر حَسَن
جس طرح چاہا لکھیں، دل نے کہا یُوں مت لکھ !
سیکڑوں بار، دھرا اور اُٹھایا کاغذ
درودیوار پہ، کوُچے میں حَسن نے اُس کے
اپنے احوال کا، لِکھ لِکھ کے لگایا کاغذ
میر حَسَن
نا گفتنی ہے حالِ دلِ ناتواں مِرا
آتی ہے شرم، میں اِسے تقریر کیا کروں
پُوچھا میں مصحفی سے، ہُوا کیوں تُو در بدر؟
بولا، کہ یوں ہی تھی مِری تقدیر، کیا کروں
غلام ہمدانی مصحفی