جیتے جی صاحبِ قبور ہوئے
مانندِ مفعول ہے، فاعلن باندھ لیا ہے۔
جتنے بھی عاشقانِ حور ہوئے
آئنے تھے سُو چُور چور ہوئے
محورِ ہر خطا ہے اپنی ذات (محورِ ہر خطا؟ عجیب سا ہے)
آدمی تو خطا کا پتلا ہے۔
ہے گنہ گار سی روش اپنی
پھر بھی کہتے ہیں بے قصور ہوئے
منحصر دوسروں پہ رہتے ہیں
غیروں پر انحصار کرتے ہیں...