نتائج تلاش

  1. محمد حسین

    زندگی میں جو تم آئے ہو مرے اتنے قریب

    مطلع میں "یوں " کے علاوہ کوئی لفظ سجھائی نہیں دیتا۔ اگر الفاظ بدلیں تو یوں بہتر لگ رہا ہے: "کیوں پھر اغیار کو لاتے ہو یوں خاطر میں حبیب؟" دوسرے مصرعے میں آپ کی صلاح بہتر ہے۔ مقطع میں اگر یوں کر لیں تو: ذہن اُلجھا ہے‘ پریشان سا دل‘ حال عجیب! الف عین
  2. محمد حسین

    زندگی میں جو تم آئے ہو مرے اتنے قریب

    یہ مصرع یوں ہی تھا: "کبھی وہ چاہیں دوا اور کبھی ہم چاہیں رقیب" لکھنے میں غلطی ہوئی
  3. محمد حسین

    آج کا شعر - 5

    میر جی زرد ہوتے جاتے ہو کیا کہیں تم نے بھی کیا ہے عشق؟
  4. محمد حسین

    زندگی میں جو تم آئے ہو مرے اتنے قریب

    (کافی عرصہ خاموش رہنے کے بعد کسی کی یاد میں ایک حقیر سی کاوش) زندگی میں جو تم آئے ہو مرے اتنے قریب کیوں پھر اغیار کو خاطر میں یوں لاتے ہو حبیب؟ منسلک اُن سے ہے جو کچھ بھی ہمارا حق ہے ہم سے برداشت نہیں چاہے ہو ادنیٰ سا رقیب کبھی بیمارِ محبت وہ، کبھی ہم عاشق کبھی وہ چاہیں دوا کبھی ہم چاہیں طبیب...
  5. محمد حسین

    شیطان۔۔نظم برائے اصلاح

    یاد اب شیراز رکھنا۔۔۔۔ آ نہ جانا پھر قیادت میں اسی کی؟ بے جا الفاظ کا استعمال۔۔۔
  6. محمد حسین

    اس کا بحر کونسا ہے

    مجھے تو اس کی بحر فعلن فعلن لگ رہی ہے
  7. محمد حسین

    ھم سے انجان ہو کر بھی دلدار ہے

    ھم سے انجان ہو کر بھی دلدار ہے کوئی نا اہم بھی اور ضروری بھی ہے اپنے جیون میں دکھتی ہیں ویرانیاں زندگی کچھ ادھوری ادھوری سی ہے سب جو موجود ہے ہو گا اک دن فنا زندگی وصل کی گویا دوری کی ہے کیوں حسین آپ کے ہوش گم ہیں کہاں لوگ اہلِ خرد نے حضوری دی ہے
  8. محمد حسین

    جوش جذبہ جوان کر تا ہوں

    زبان کرنا وعدہ کرنا کے معانی میں نہیں آ سکتا؟ آخری مصرعہ یوں تھا: "بکھری زلفیں یہ بھیگی بھیگی حسین" بھیگی ھوئی زلفیں بکھری ہوئی ہیں، یہ کہنا چاہتا ہوں چوتھا مصرعہ یوں ٹھیک ہے؟ " تم کو وعدہ نبھانا مشکل ہے میں فدا تم پہ جان کرتا ہوں" الف عین
  9. محمد حسین

    جوش جذبہ جوان کر تا ہوں

    معذرت جناب! دراصل یہ غزل دوستوں کو بھیجنی تھی، اس لیے جلدی تھی۔ آیئندہ صبر کا دامن ہاتھ سے نھیں جانے دوں گا
  10. محمد حسین

    جوش جذبہ جوان کر تا ہوں

    اصلاح میں کچھ تو کہئے، یا یہ غزل اس لائق نہیں کہ اس پر تبصرہ کیا جائے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
  11. محمد حسین

    جوش جذبہ جوان کر تا ہوں

    جوش جذبہ جوان کر تا ہوں نالہءدل بیان کرتا ہوں لوگ اتنے ہیں اردگرد مگر خود کو تنہا گُمان کرتا ہوں سچ سے رغبت نہ جھوٹ سے ہے لگن میں حقیقت بیان کرتا ہوں تم سے وعدہ نبھانا مشکل ہے میں فدا تم پہ جان کرتا ہوں جانتا ہوں نہ آئیں گے و ہ کبھی لیتا ہوں نہ زُبان کرتا ہوں خود طلب ہے کہ وہ عزیز رکھیں...
  12. محمد حسین

    کچھ جوباقی اساس چہرے ہیں

    کچھ جوباقی اساس چہرے ہیں یہ بھی سب کو نہ راس چہرے ہیں ذہن میں نقش بیٹھتے ہی نہیں اس قدر آس پاس چہرے ہیں دنیا داری میں اُلجھے لوگوں کے کیسے کیسے اُداس چہرے ہیں؟ پڑھ رہے ہیں کتابیں طالب علم اور کُل بد حواس چہرے ہیں جب نہ قابل رہیں دکھانے کے اوڑھ لیتے لباس چہرے ہیں گندگی سے بدن سیاہ حسینؔ...
  13. محمد حسین

    توڑتے ہیں کبھی بندھاتے ہیں

    میں نے اس غزل کو تبدیل کیا ہے، اب اس پر اصلاح فرمایئے: لمحے ماضی کے جو یاد آتے ہیں بہتری کے لئے اُکساتے ہیں توڑنا پھر سے بندھانا ہائے رکھ کر آس آپ سے پچھتاتے ہیں نفرتوں میں ہو گا کیا حال اپنا جب محبت میں تڑپ جاتے ہیں دل کا بگڑا ہے سدھرتا مشکل یوں تو سب ہی اسے سمجھاتے ہیں وقت بھی چارہ گری کرتا ہے...
  14. محمد حسین

    توڑتے ہیں کبھی بندھاتے ہیں

    "نکل" میں ک مجزوم ہوتا ہے؟ ک پر فتح نہیں آتی؟ بُہتے سے مراد بہت لوگ۔ صبر والے جو یہ پَھل کھاتے ہیں " فاعِ لاتن فَ عِ لا تن فع لن" پر نہیں آ سکتا؟ "ہوئے" کی تقطیع سمجھا دیں
  15. محمد حسین

    وقت تھمتا نہ سانس رکتی ہے

    استاد صاحب کی بات صحیح سمجھ نہیں پڑی۔ کیا قوافی درست سمجھوں؟ رنگت لفظ سے مراد ذات سمجھ لیجئے۔ میں سمجھ سکتا ہوں کہ یہاں یہ لفظ درست نہیں۔
  16. محمد حسین

    توڑتے ہیں کبھی بندھاتے ہیں

    سر، یہ غزل فاعلاتن فعلاتن فعلن پر لکھی ہے۔ بندھاتے مفعولن پر سمجھ کر ہی ڈالا ہے۔ اگر اس پر نہیں آ سکتا تو رہنمائی کا شکریہ
  17. محمد حسین

    وقت تھمتا نہ سانس رکتی ہے

    وقت تھمتا نہ سانس رکتی ہے شمعِ دل ہے کہ جلتی بجھتی ہے روز تبد یل دنیا دیکھتا ہوں اِک نئی راہ روز کھلتی ہے سامنے آنے والے رُوپوں میں اصلیت آدمی کی چُھپتی ہے جینے کی ابتداء ہے حودغرضی رش میں بندے کی سانس گُھٹتی ہے عقل سے ماورائی ملتی ہے،جب عشق میں دنگت اپنی گُھلتی ہے اہمیت خود کو خود نہ دے جو...
  18. محمد حسین

    توڑتے ہیں کبھی بندھاتے ہیں

    توڑتے ہیں کبھی بندھاتے ہیں آس رکھیئے تو وہ تڑ پاتے ہیں دوستی کر کے نبھانے کا ہو ڈھنگ دوست سے دوست نکل آتے ہیں دل کا بگڑا ہے سدھرتا مشکل یوں تو بہتے اسے سمجھاتے ہیں وقت بھی چارہ گری کرتا ہے صبر والے جو یہ پھل کھاتے ہیں کیا جدا آپ ہوئے ہم سے حسین سخت بیمار ہوئے جاتے ہیں
  19. محمد حسین

    کوئی نکالے بات سے سو بات، کچھ ھو بات

    جی۔ قوافی ملتے تھے اس لیے ایک غزل میں ہو گئے! دوسرے شعر میں کیجے ڈالا تھا، لیکن کیجیے بہتر لگ رہا ہے۔
Top