'ہو نہ جائے کچھ' یہ کیسا خوف ہے چھایا ہوا
اس مسلسل فکر سے ہے ذہن پتھرایا ہوا
گھُل رہی ہے جان میری سوچ کر باتیں کئی
پھر الجھ جاتا ہے کوئی وہم سلجھایا ہوا
مجھ کو ہر 'شاید' کے اندیشے لگے ہیں رات دن
وسوسوں نے ہر طرف ہے جال پھیلایا ہوا
خیر کی امّید تو ہوتی ہے لیکن ساتھ ہی
پھر ابھر آتا ہے...