نتائج تلاش

  1. فریب

    دیوان غالب

    نہیں کہ مجھ کو قیامت کا اعتقاد نہیں شبِ فراق سے روزِ جزا زیاد نہیں کوئی کہے کہ “شبِ ماہ میں کیا بُرائی ہے“ بلا سے آج اگر دن کو ابر و باد نہیں جو آؤں سامنے اُن کے تو مرحبا نہ کہیں جو جاؤں واں سے کہیں کو تو خیر باد نہیں کبھی جو یاد بھی آتا ہوں میں تو کہتے ہیں کہ “ آج بزم میں کچھ فتنہ و فساد...
  2. فریب

    دیوان غالب

    یہ ہم ہیں جو ہجر میں دیوار و در کو دیکھتے ہیں کبھی صبا کو کبھی نامہ بر کو دیکھتے ہیں نظر لگے نہ کہیں اُس کے دست و بازو کو یہ لوگ کیوں مرے زخمِ جگر کو دیکھتے ہیں ترے جواہرِ طرفِ کلہ کو کیا دیکھیں ہم اوجِ طالعِ لعل و گہر کو دیکھتے ہیں
  3. فریب

    دیوان غالب

    دونوں جہان دے کے وہ سمجھے کہ خوش رہا یاں آ پڑی یہ شرم کہ تکرار کیا کریں تھک تھک کے ہر مقام پہ دو چار رہ گئے تیرا پتہ نہ پائیں تو ناچار کیا کریں؟ کیا شمع کے نہیں ہیں ہوا خواہ اہلِ بزم؟ ہو غم ہی جاں گداز تو غم خوار کیا کریں؟
  4. فریب

    دیوان غالب

    نالہ جُز حسنِ طلب، اے ستم ایجاد نہیں ہے تقاضائے جفا، شکوہء بیداد نہیں عشق و مزدوریِ عشرت گہِ خسرو، کیا خُوب! ہم کو تسلیم نکو نامئ فرہاد نہیں کم نہیں وہ بھی خرابی میں، پہ وسعت معلوم دشت میں ہے مجھے وہ عیش کہ گھر یاد نہیں اہلِ بینش کو ہے طوفانِ حوادث مکتب لطمہء موج کم از سیلیِ استاد نہیں...
  5. فریب

    دیوان غالب

    ذکر میرا بہ بدی بھی اُسے منظور نہیں غیر کی بات بگڑ جائے تو کچھ دُور نہیں وعدہ سیرِ گلستاں ہے خوشا طالعِ شوق مژدہء قتل مقدّر ہے جو مذکور نہیں شاہرِ ہستئ مطلق کی کمر ہے عالم لوگ کہتے ہیں کہ “ ہے“ پر ہمیں‌منظور نہیں قطرہ اپنا بھی حقیقت میں ہے دریا لیکن ہم کو تقلیدِ تُنک ظرفئ منصور نہیں...
  6. فریب

    یوں

    میں نے کہا کہ “ بزمِ ناز چاہیے غیر سے تہی“ سُن کر ستم ظریف نے مجھ کو اُٹھا دیا کہ یُوں
  7. فریب

    دیوان غالب

    حیراں ہوں، دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو مَیں مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو مَیں چھوڑا نہ رشک نے کہ ترے گھر کا نام لوں ہر اک سے پُو چھتا ہوں کہ “ جاؤں کدھر کو مَیں“ جانا پرا رقیب کے در پر ھزار بار اے کاش جانتا نہ تری رہ گزر کو مَیں ہے کیا، جو کَس کے باندھیے میری بلا ڈرے کیا جانتا نہیں...
  8. فریب

    دیوان غالب

    کل کے لئے کر آج نہ خسّت شراب میں یہ سُوء ظن ہے ساقئ کوثر کے باب میں ہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند گستاخئ فرشتہ ہماری جناب میں جاں کیوں نکلنے لگتی ہے تن سے دمِ سماع گردہ صدا سمائی ہے چنگ و رباب میں رَو میں‌ہے رخشِ عمر، کہاں دیکھیے تھمے نے ہاتھ باگ ہر ہے نہ پا ہے رکاب میں اتنا ہی...
  9. فریب

    دیوان غالب

    ملتی ہے خُوئے یار سے نار الہتاب میں کافر ہوں گر نہ ملتی ہو راحت عزاب میں کب سے ہُوں۔ کیا بتاؤں جہانِ خراب میں شب ہائے ہجر کو بھی رکھوں گر حساب میں تا پھر نہ انتظار میں نیند آئے عمر بھر آنے کا عہد کر گئے آئے جو خواب میں قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں کے جواب...
  10. فریب

    دیوان غالب

    جہاں تیرا نقشِ قدم دیکھتے ہیں خیاباں خیاباں ارم دیکھتے ہیں دل آشفتگاں خالِ کنجِ دہن کے سویدا میں سیرِ عدم دیکھتے ہیں ترے سروِ قامت سے اک قدِ آدم قیامت کے فتنے کو کم دیکھتے ہیں تماشا کر اے محوِ آئینہ داری تجھے کس تمنّا سے ہم دیکھتے ہیں سراغِ تُفِ نالہ لے داغِ دل سے کہ شب رَو کا نقشِ قدم...
  11. فریب

    دیوان غالب

    عشق تاثیر سے نومید نہیں جاں سپاری شجرِ بید نہیں سلطنت دست بدست آئی ہے جامِ مے خاتمِ جمشید نہیں ہے تجلی تری سامانِ وجود ذرّہ بے پر توِ خورشید نہیں رازِ معشوق نہ رسوا ہو جائے ورنہ مر جانے میں کچھ بھید نہیں گردشِ رنگِ طرب سے ڈر ہے غمِ محرومئ جاوید نہیں کہتے ہیں جیتے ہیں اُمّید پہ لوگ ہم...
  12. فریب

    غیرشادی شدہ اورانکےمسائیل

    شاہ جی ذرا عہدے کو واضع انداز میں لکھیں آخر ہمیں بھی پتہ چلے کہ کونسا عہدہ دیا جا رہا ہے باجو کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ :twisted:
  13. فریب

    ہمزہ کا استمال، املا یا ٹائپنگ کی غلطیاں

    کوشش کی جائے گی کہ دوبارہ ایسی غلطیاں نہ ہونے پائیں
  14. فریب

    نام بتائیں

    ناصر
  15. فریب

    دیوان غالب

    عہدے سے مدِح‌ناز کے باہر نہ آ سکا گراک ادا ہو تو اُسے اپنی قضا کہوں حلقے ہیں چشم ہائے کشادہ بسوئے دل ہر تارِ زلف کو نگہِ سُرمہ سا کہوں میں، اور صد ہزار نوائے جگر خراش تو، اور ایک وہ نہ شنیدن کہ کیا کہوں ظالم مرے گماں سے مجھے منفعل نہ چاہ ہَے ہَے خُدا نہ کردہ، تجھے بے وفا کہوں...
  16. فریب

    نام بتائیں

    نعیم
  17. فریب

    دیوان غالب

    آبرو کیا خاک اُس گُل کی کہ گلشن میں نہیں ہے گریبان ننگِ پیراہن جو دامن میں نہیں ضعف سے اے گریہ کچھ باقی مرے تن میں نہیں رنگ ہو کر اڑ گیا، جو خوں کہ دامن میں نہیں ہو گئے ہیں جمع اجزائے نگاہِ آفتاب ذرے اُس کے گھر کی دیواروں کے روزن میں نہیں کیا کہوں تاریکئ زندانِ غم اندھیر ہے پنبہ نورِ صبح...
  18. فریب

    دیوان غالب

    کی وفا ہم سے تو غیر اس کو جفا کہتے ہیں ہوتی آئی ہے کہ اچھوں کو برا کہتے ہیں آج ہم آپنی پریشانئی خاطر ان سے کہنے جاتے تو ہیں پر دیکھئے کیا کہتے ہیں اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ انہیں کچھ نہ کہو جو مے و نغمہ کو اندوہ رُبا کہتے ہیں دل میں آ جائے ہے ہوتی ہے جو فرصت غش سے اور پھر کونسے نالے کو رسا...
  19. فریب

    دیوان غالب

    وہ فراق اور وہ وصال کہاں وہ شب و روز وہ ماہ و سال کہاں فرصتِ کاروبارِ شوق کسے ذوقِ نظارہ جمال کہاں دل تو دل وہ دماغ بھی نہ رہا شورِ سودائے خط و خال کہاں تھی وہ اک شخص کے تصور سے اب وہ رعنائی خیال کہاں ایسا آساں نہیں لہو رونا دل میں‌طاقت، جگر...
  20. فریب

    [دیوان غالب] تبصرے اور تجاویز

    شمشاد بھائی تو کسی اور کتاب میں مصروف ہیں تو ان کی جگہ کیا میں ن والی غزلیں post کر سکتا ہوں؟
Top