نتائج تلاش

  1. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    434 لگوائے پتھر اور بُرا بھی کہا کیے تم نے حقوق دوستی کے سب ادا کیے بے عیب ذات ہے گی خدا ہی کی اے بُتاں تم لوگ خوبرو جو کیے بے وفا کیے
  2. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    433 جب نام ترا لیجے تب چشم بھر آوے اس زندگی کرنے کو کہاں سے جگر آوے کیا جانیں وے مرغانِ گرفتار چمن کو جن تک کہ بہ صد ناز نسیمِ سحر آوے ہر سُو سر تسلیم رکھے صید حرم میں وہ صید فگن تیغ بہ کف تا کدھر آوے صناع ہیں سب خوار، ازاں جملہ ہوں میں بھی ہے عیب بڑا اُس میں جسے کچھ ہنر آوے (ق)...
  3. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    432 برقعے کو اٹھا چہرے سے وہ بت اگر آوے اللہ کی قدرت کا تماشا نظر آوے اے ناقہء لیلٰی دو قدم راہ غلط کر مجنوں ز خودِ رفتہ کبھو راہ پر آوے (ق) ممکن نہیں آرام دے بے تابی جگر کی جب تک نہ پلک پر کوئی ٹکڑا نظر آوے مت ممتحنِ باغ ہو اے غیرتِ گلزار گُل کیا کہ جسے آگے ترے بات کر آوے...
  4. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    431 یارب کوئی ہو، عشق کا بیمار نہ ہووے مرجائے، ولے اُس کو یہ آزار نہ ہووے زنداں میں پھنسے ، طوق پڑے، قید میں مر جائے پر دامِ محبت میں گرفتار نہ ہووے اس واسطے کانپوں ہوں کہ ہے آہ نپٹ سرد یہ باد کلیجے کے کہیں پار نہ ہووے صحرائے محبت ہے، قدم دیکھ کے رکھ میر یہ سیر سرِ کُوچہ و بازار نہ...
  5. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    430 کس نے لی رخصت پرواز پس از مرگِ نسیم مشتِ پر باغ میں آتے ہیں پریشان ہوئے سبزہ و لالہ و گُل، ابر و ہوا ہے، مے دے ساقی ہم توبہ کے کرنے سے پشیماں ہوئے دعویِ خوش دہنی گرچہ اُسے تھا، لیکن دیکھ کر مجھ کو ترے، گُل کے تئیں کان ہوئے اپنے جی ہی نے نہ چاہا کہ پییں آبِ حیات یوں تو ہم میر...
  6. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    429 نہیں وہ قیدِ الفت میں، گرفتاری کو کیا جانے تکلف برطرف، بے مہر ہے، یاری کو کیا جانے وہ ہے اک مندرس نالہ مبارک مرغِ گلشن کو وہ اس ترکیب ِ نو کے نالہ و زاری کو کیا جانے ستم ہے تیری خوئے خشمگیں پر ٹک بھی دل جوئی دل آزاری کی باتیں کر، تُو دل داری کو کیا جانے گلہ اپنی جفا کا سن کے مت...
  7. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    428 ابر و بہار و بادہ سبھوں میں ہے اتفاق ساقی جو تُو بھی مل چلے تو واہ واہ ہے
  8. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    427 خوب ہی اے ابر، اک شب آؤ، باہم روئیے پر نہ اتنا بھی کہ ڈوبے شہر، کم کم روئیے وقتِ خوش دیکھا نہ اک دم سے زیادہ دہر میں خندہء صبحِ چمن پر مثلِ شبنم روئیے شادی و غم میں جہاں کی ایک سے دس کا ہے فرق عید کےدن ہنسیے تو دس دن محرم روئیے دیکھا ماتم خانہء عالم کو ہم مانندِ ابر ہر جگہ پر...
  9. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    426 گرے بحرِ بَلا مژگاں پر سے نگاہیں اُٹھ گئیں طوفاں پر سے کہاں ہیں آدمی عالم میں پیدا خدائی صدقے کی انسان پر سے
  10. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    425 رنج کھینچے تھے، داغ کھائے تھے دل نے صدمے بڑے اٹھائے تھے پاسِ ناموسِ عشق تھا، ورنہ کتنے آنسو پلک تک آئے تھے وہی سمجھا نہ ، ورنہ ہم نے تو زخم چھاتی کے سب دکھائے تھے اب جہاں آفتاب میں ہم ہیں یاں کبھو سرو و گُل کے سائے تھے کچھ نہ مجھے کہ تجھ سے یاروں نے کس توقع پہ دل لگائے تھے...
  11. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    424 اس اسیری کے نہ کوئی اے صبا پالے پڑے اِک نظر گُل دیکھنے کے بھی ہمیں لالے پڑے حسن کو بھی عشق نے آخر کیا حلقہ بہ گوش رفتہ رفتہ دلبروں کے کان میں بالے پڑے مت نگاہِ مست کو تکلیف کر ساقی زیاد ہر طرف تو ہیں گلی کوچوں میں متوالے پڑے کیوں کے طے ہو دشتِ شوق آخر کو مانندِ سرشک میرے پاؤں...
  12. وہاب اعجاز خان

    بوجھو تو جانیں

    جواب نہیں
  13. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    423 یاں سرکشاں جو صاحب تاج و لوا ہوئے پامال ہوگئے تو نہ جانا کہ کیا ہوئے دیکھی نہ ایک چشمکِ گُل بھی چمن میں آہ ہم آخرِ بہار قفس سے رہا ہوئے بچھتاؤ گے بہت جو گئے ہم جہان سے آدم کی قدر ہوتی ہے ظاہر ، جدا ہوئے تجھ بِن دماغِ صحبتِ اہلِ چمن نہ تھا گُل وا ہوئے ہزار، ولے ہم نہ وا ہوئے...
  14. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    422 غیر سے اب یار ہوا چاہیے ملتجی ناچار ہوا چاہیے جس کے تئیں ڈھونڈیں ہیں وہ سب میں ہے کس کا طلب گار ہوا چاہیے تاکہ وہ ٹک آن کے پوچھے کبھو اس لیے بیمار ہوا چاہیے زلف کس کی ہو کہ ہو خال و خط دل کو گرفتار ہوا چاہیے کچھ نہیں خورشید صفت سرکشی سایہء دیوار ہوا چاہیے
  15. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    421 مت ہو مغرور اے کہ تجھ میں زور ہے یاں سلیماں کے مقابل مور ہے مرگئے پر بھی ہے صولت فقر کی چشمِ شیر اپنا چراغِ گور ہے دل کھینچے جاتے ہیں سارے اُس طرف کیوں کہ کہیے حق ہماری اور ہے تھا بلا ہنگامہ آرا میر بھی اب تلک گلیوں میں اُس کا شور ہے
  16. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    420 بہت دور کوئی رہا ہے مگر کہ فریاد میں ہے جرس شور سے ترے دل جلے کو رکھا جس گھڑی دھواں سا اُٹھا کچھ لبِ گور سے
  17. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    419 تجھ سے دُچار ہوگا جو کوئی راہ جاتے پھر عمر چاہیے گی اُس کو بحال آتے گر دل کی بے قراری ہوتی یہی جواب ہے تو ہم ستم رسیدہ کاہے کو جینے پاتے وے دن گئے کہ اُتھ کر جاتے تھے اُس گلی میں اب سعی چاہیے ہے بالیں سے سر اُٹھاتے گر جانتے کہ یوں ہی برباد جائیں گے تو کاہے کو خا ک میں ہم اپنے...
  18. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    418 آنکھوں میں دلبروں کی مطلق نہیں مروت یہ پاسِ آشنائی منظور کیا رکھیں گے دیوانِ میر صاحب ہر اک کی ہے بغل میں دو چار شعر اُن کے ہم بھی لکھا رکھیں گے
  19. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    417 تیری گلی سے جب ہم عزمِ سفر کریں گے ہر ہر قدم کے اوپر پتھر جگر کریں گے آزردہ خاطروں سے کیا فائدہ سخن کا تم حرف سر کرو گے، ہم گریہ سر کریں گے سر جائے گا ولیکن آنکھیں اُدھر ہی ہوں گی کیا تیری تیغ سے ہم قطعِ نظر کریں گے اپنی خبر بھی ہم کو اب دیر پہنچتی ہے کیا جانے یار اُس کو کب تک...
  20. وہاب اعجاز خان

    بوجھو تو جانیں

    جواب یار اتنے مشکل بھی نہیں ہیں۔ ذرا سوچنے سے جواب معلوم ہوجاتا ہے۔
Top