نتائج تلاش

  1. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    381 آگے ہمارے عہد سے وحشت کو جا نہ تھی دیوانگی کسی کی بھی زنجیرِ پا نہ تھی بیگانہ سا لگے ہے چمن اب خزاں میں ہائے ایسی گئی بہار، مگر آشنا نہ تھی کب تھا یہ شورِ نوحہ، ترا عشق جب نہ تھا دل تھا ہمارا آگے تو ماتم سرا نہ تھی وہ اور کوئی ہوگی سحر جب ہوئی قبول شرمندہء اثر تو ہماری دُعا نہ...
  2. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    380 مجھ سا بے تاب ہووے جب کوئی بے قراری کو جانے تب کوئی ہاں خدا مغفرت کرے اُس کو صبرِ مرحوم تھا عجب کوئی جان دے گو مسیح پر اس سے بات کہتے ہیں تیرے لب کوئی بعد میرے ہی ہوگیا سنسان سونے پایا تھا ورنہ کب کوئی (ق) اور محزوں بھی ہم سُنے تھے ولے میر سا ہو سکے ہے کب کوئی کہ تلفظ...
  3. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    379 اب صعف سے ڈہتا ہے بے تابی شتابی کی اس دل کے تڑپنے نے کیا خانہ خرابی کی بُھنتے ہیں دل اک جانب، سِکتے ہیں جگر یک سُو ہے مجلسِ مشتاکاں دکان کبابی کی تلخ اُس لبِ مے گوں سے سب سنتے ہیں کس خاطر تہ دار نہیں ہوتی گفتار شرابی کی یک بو کشیِ بلبل ، ہے موجبِ صد مستی پُر زور ہے کیا دارو...
  4. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    378 ہوگئی شہر شہر رسوائی اے مری موت تُو بھلی آئی یک بیاباں بہ رنگِ صوتِ جرس مجھ پہ ہے بے کسی و تنہائی میر جب سے گیا ہے دل، تب سے میں تو کچھ ہوگیا ہوں سودائی
  5. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    377 کچھ موجِ ہوا پیچاں اے میر نظر آئی شاید کہ بہار آئی، زنجیر نظر آئی دلی کے نہ تھے کوچے، اوراق مصور تھے جو شکل نظر آئی، تصویر نظر آئی اُس کی تو دل آزاری بے ہیچ ہی تھی یارو کچھ تم کو ہماری بھی تقصیر نظر آئی!
  6. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    376 دو دن سے کچھ بنی تھی، سو پھر شب بگڑ گئی صحبت ہماری یار سے بے ڈھب بگڑ گئی واشد کچھ آگے آہ سے ہوتی تھی دل کے تئیں اقلیمِ عاشقی کی ہوا اب بگڑ گئی گرمی نے دل کی، ہجر میں اُس کے جلا دیا شاید کہ احتیاط سے یہ تب بگڑ گئی باہم سلوک تھا تو اُٹھاتے تھے نرم گرم کاہے کو میر کوئی دبے، جب بگڑ گئی
  7. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    375 جو آنسو پی گیا میں ، آخر کو میر اُن نے چھاتی جلا جگر میں، اک آگ جا لگائی
  8. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    374 لا علاجی سے جو رہتی ہے مجھے آوارگی کیجیے کیا میر صاحب، بندگی بے چارگی کیسی کیسی صحبتیں آنکھوں کے آگے سے گئیں دیکھتے ہی دیکھتے کیا ہوگیا یک بارگی رُوئے گُل پر روز و شب کس شوق سے رہتا ہے باز رخنہء دیوار ہے یا دیدہء نظارگی اشکِ خونیں آنکھ میں بھر لا کے پی جاتا ہوں میں محسب رکھتا...
  9. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    373 الم سے یاں تئیں میں مشقِ ناتوانی کی کہ میری جان نے تن پر مرے گرانی کی چمن کا نام سنا تھا ولے نہ دیکھا ہائے جہاں میں ہم نے قفس ہی میں زندگانی کی ملائی خوب مری خون میں خاکِ بسمل گاہ یہ تھوڑی منتیں ہیں مجھ پہ سخت جانی کی
  10. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    373 بے طاقتی سے آگے کچھ پوچھتا بھی تھا، سو رونے نے ہر گھڑی کے وہ بات ہی ڈبوئی بلبل کی بے کلی نے شب بے دماغ رکھا سونے دیا نہ ہم کو، ظالم نہ آپ سوئی
  11. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    372 نگاہِ مست سے جب چشم نے اُس کی اشارت کی حلاوت مے کی اور بنیاد مے خانے کی غارت کی سحر گہ میں نے پوچھا گُل سے حالِ زار بلبل کا پڑے تھے باغ میں یک مشت پر اُودھر اشارت کی جلایا جس تجلی جلوہ گر نے طُور کو ہمدم اُسی آتش کے پرکالے نے ہم سے بھی شرارت کی ترے کوچے کے شوقِ طوف میں جیسے...
  12. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    371 فکر ہے ماہ کے جو شہر بدر کرنے کی ہے سزار تجھ پہ یہ گستاخ نظر کرنے کی کیا جلی جاتی ہے خوبی ہی میں اپنی اے شمع! کہہ پتنگے کے بھی کچھ شام و سحر کرنے کی اب کی برسات ہی کے ذمے تھا عالم کا وبال میں تو کھائی تھی قسم چشم کے تر کرنے کی ان دنوں نکلے ہے آغشتہ بہ خوں راتوں کو دُھن ہے نالے...
  13. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    370 خبر نہ تھی تجھے کیا میرے دل کی طاقت کی نگاہِ خشم اُدھر تُو نے کی، قیامت کی اُٹھائی ننگ سمجھ تم نے بات کے کہتے وفا و مہر جو تھی، رسم ایک مدت کی سوال میں نے جو انجامِ زندگی سے کیا قدِ خمیدہ نے سُوئے زمیں اشارت کی
  14. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    369 کس پاس جاکے بیٹھوں خرابے میں اب میں ہائے مجنوں کو موت کیسی شتابی میں آگئی سودا جو اُس کے سر سے گیا زلفِ یار کا تو تو بڑی ہی میر کے سر سے بَلا گئی
  15. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    368 پڑی خرمنِ گُل پہ بجلی سی آخر مرے خوش نگہ کی نگاہ اک غضب کی کوئی بات نکلے ہے دُشوار منھ سے ٹک اک تُو بھی تو سن کسی جاں بہ لب کی عجب کچھ ہے گر میر آوے میسر گلابی شراب اور غزل اپنے ڈھب کی
  16. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    367 سینے سے تیر اُس کا جی کو تو لیتا نکلا پر ساتھوں ساتھ اُس کے نکلی اک آفریں بھی ہر شب تری گلی میں عالم کی جان جا ہے آگے ہوا ہے اب تک ایسی ستم کہیں بھی! شوخیِ جلوہ اس کی تسکین کیوں کے بخشے آئینوں میں دلوں کے جوہے بھی ، پھر نہیں بھی تکلیفِ نالہ مت کر اے درد دل کہ ہوں گے رنجیدہ راہ...
  17. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    366 ہمیں آمدِ میر کل بھا گئی طرح اُس میں مجنوں کی سب پا گئی کہاں کا غبار آہ دل میں یہ تھا مری خاک بدلی سی سب چھا گئی کیا پاسِ بلبل خزاں نے نہ کچھ گُل و برگ بے درد پھیلا گئی ہوئی سامنے یوں تو اک ایک کے ہمیں سے وہ کچھ آنکھ شرما گئی کوئی رہنے والی ہے جانِ عزیز گئی گر نہ اِمروز،...
  18. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    365 کل میر نے کیا کیا کی مے کے لیے بے تابی آخر کو گرو رکھا سجادہء محرابی جاگا ہے کہیں وہ بھی شب مرتکبِ مے ہو یہ بات سُجھاتی ہے اُن آنکھوں کی بے خوابی کیا شہر میں گنجائش مجھ بے سروپا کو ہو اب بڑھ گئے ہیں میرے اسبابِ کم اسبابی دن رات مری چھاتی جلتی ہے محبت میں کیا اور نہ تھی جاگہ،...
  19. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    364 بات شکوے کی ہم نے گاہ نہ کی بلکہ دی جان اور آہ نہ کی گُل و آئینہ، ماہ و خور، کن نے چشم اُس چہرے پر سیاہ نہ کی کعبے سو بار وہ گیا تو کیا جس نے یاں ایک دل میں راہ نہ کی واہ اے عشق! اُس ستم گر نے جاں فشانی پہ میری واہ نہ کی جس سے تھی چشم ہم کو کیا کیا میر اس طرف اُن نے اک نگاہ...
  20. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    363 آہ میری زبان پر آئی یہ بَلا آسمان پر آئی عالمِ جاں سے تو نہیں آیا ایک آفت جہاں پر آئی پیری آفت ہے، پھر نہ تھا گویا یہ بَلا جس جوان پر آئی ہم بھی حاضر ہیں کھینچیے شمشیر طبع گر امتحان پر آئی آتشِ رنگِ گُل سے کیا کہیے برق تھی، آشیان پر آئی طاقتِ دل بہ رنگِ نکہتِ گُل پھیر...
Top