نتائج تلاش

  1. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    349 جگر لوہو کو ترسے ہے، میں سچ کہتا ہوں دل خستہ دلیل اس کی نمایاں ہے، میری آنکھیں ہیں خوں بستہ چمن میں دل خراش آواز آتی ہے چلی، شاید پسِ دیوارِ گلشن نالہ کش ہے کوئی پر بستہ ترے کوچے میں یکسر عاشقوں کے خارِ مژگاں ہیں جو تُو گھر سے کبھو نکلے تو رکھیو پاؤں آہستہ تعجب ہے مجھے یہ سرو کو...
  2. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    348 ہ سو ظلم کے رہتے ہیں سزاوار ہمیشہ ہم بے گنہ اُس کے ہیں گنہ گار ہمیشہ اک آن گزر جائے تو کہنے میں کچھ آوے درپیش ہے یاں مُردنِ دشوار ہمیشہ ہےدامنِ گُل چینِ چمن جیب ہمارا دنیا میں رہے دیدہء خونبار ہمیشہ
  3. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    347 اُجرت میں نامے کی ہم دیتے ہیں جاں تلک تو اب کارِ شوق اپنا پہنچا ہے یاں تلک تو آغشتہ میرے خوں سے اے کاش جا کے پہنچے کوئی پر شکستہ ٹک گلستاں تلک تو واماندگی نے مارا اثنائے رہ میں ہم کو معلوم ہے پہنچنا اب کارواں تلک تو افسانہ غم کا لب تک آیا ہے مدتوں میں سو جائیو نہ پیارے اس...
  4. وہاب اعجاز خان

    شعر جو ضرب المثل بنے

    347 میر کا ایک اور شہرہ آفاق شعر اب پتہ نہیں یہاں شامل ہو چکا ہے یا نہیں۔ رات مجلس میں تری ہم بھی کھڑے تھے چپکے جیسے تصویر لگا دے کوئی دیوار کے ساتھ
  5. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    347 لطف کیا آرزو ہو کر آپ سے ملنے کے بیچ ٹک تری جانب سے جب تک عذر خواہی بھی نہ ہو چاہتا ہے جی کہ ہم تُو ایک جا تنہا ملیں ناز بے جا بھی نہ ہووے ، کم نگاہی بھی نہ ہو
  6. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    346 فرصت نہیں تنک بھی کہیں اضطراب کو کیا آفت آ گئی مرے اس دل کی تاب کو گزرے ہے شب خیال میں خوباں کے جاگتے آنکھیں لگا کے اُن سے میں ترسوں ہوں خواب کو خط آگیا ، پر اُس کا تغافل نہ کم ہوا قاصد مرا خراب پھرے ہے جواب کو تیور میں جب سے دیکھے ہیں ساقی خمار کے پیتا ہوں رکھ کے آنکھوں پہ...
  7. وہاب اعجاز خان

    ماشا اللہ ۔ ۔ ۔ اص چوپال نے طو قمال قر دیا۔

    نحیں کہیل اے داغ یارو سے کحح دو کح آتی حے اردو ذباں آتے آتے
  8. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    345 محرماں بے دمی کا میری سبب مت پوچھو ایک دم چھوڑ دو یوں ہی مجھے، اب مت پوچھو گریہء شمع کا اے ہم نفساں میں تھا حریف گزری ہے رات کی صحبت بھی عجب ،مت پوچھو لب پہ شیون، مژہ پر خون و نگہ میں اک یاس دن گیا ہجر کا جس ڈھنگ سے شب، مت پوچھو میر صاحب نئی یہ طرز ہو اس کی تو کہوں موجبِ آزردگی...
  9. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    344 اس کی طرز نگاہ مت پوچھو جی ہی جانے ہے آہ، مت پوچھو کہیں پہنچو گے بے رہی میں بھی گمرہاں یوں یہ راہ مت پوچھو نو گرفتارِ دامِ زلف اُس کا ہے یہی رُو سیاہ، مت پوچھو (ق) تھا کرم پر اُسی کے شرب مدام میرے اعمال ، آہ مت پوچھو تم بھی اے مالکانِ روزِ جزا بخش دو، اب گناہ مت پوچھو...
  10. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    343 نالہء شب نے کیا ہے جو اثر، مت پوچھو ٹکڑے ٹکڑے ہوا جاتا ہے جگر، مت پوچھو پوچھتے کیا ہو مرے دل کاتم احوال کہ ہے جیسے بیمار اجل روز بتر، مت پوچھو مرنے میں بند زباں ہونا، اشارت ہے ندیم یعنی ہے دُور کا درپیش سفر، مت پوچھو کیا پھرے وہ وطن آوارہ، گیا اب سو گیا دلِ گم کردہ کی کچھ خیر...
  11. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    342 حالِ دل میر کا اے اہل وفا مت پوچھو اس ستم کشتہ پہ جو گزری جفا، مت پوچھو صبح سے اور بھی پاتا ہوں اُسے شام کو تند کام کرتی ہے جو کچھ میری دعا، مت پوچھو ہوش و صبر و خرد و دین و حواس و دل و تاب اس کے اک آنے میں کیا کیا نہ گیا، مت پوچھو اشتعالک کی محبت نے کہ دربست پھُنکا شہر دل کیا...
  12. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    341 کیا کیا عزیز دوست ملے میر خاک میں کچھ اُس گلی میں ہم ہی نہیں خوار ایک دو
  13. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    340 جو میں نہ ہوں تو کرو ترک ناز کرنے کو کوئی تو چاہیے جی بھی نیاز کرنے کو جو بے دماغی یہی ہے تو بن چکی اپنی دماغ چاہیے ہر اک سے ساز کرنے کو وہ گرمِ ناز ہو تو خلق پر ترحم کر پکارے آپ اجل احتزار کرنے کو جو آنسو آویں تو پی جا کہ تا رہے پردہ بَلا ہے چشمِ تر افشائے راز کرنے کو ہنوز...
  14. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    339 دیکھتا ہوں دھوپ ہی میں جلنے کے آثار کو لے گئی ہیں دور تڑپیں سایہء دیوار کو وے جو مستِ بے خودی ہیں عیش کرتے ہیں مدام مے کدے میں دہر کے مشکل ہے ٹک ہشیار کو کس قدر الجھیں ہیں میرے تار دامن کے کہ اب پاؤں میں گڑ کر نہیں چُھبنے کی فرصت خار کو
  15. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    338 ہر دم شوخ دست بہ شمشیر کیوں نہ ہو کچھ ہم نے کی ہے ایسی ہی تقصیر ، کیوں نہ ہو اب تو جگر کو ہم نے بلا کا ہدف کیا انداز اس نگاہ کا پھر تِیر کیوں نہ ہو جوں گُل کسو شگفتہ طبیعت کا ہے نشاں غنچہ بھی کوئی خاطرِ دل گیر کیوں نہ ہو ہووے ہزار وحشت اسے تو بھی یار ہے اغیار تیرے ساتھ جو ہوں،...
  16. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    337 ایسا ہی ماہ، گو کہ وہ سب نُور کیوں نہ ہو ویسا ہی پھول فرض کیا حُور کیوں نہ ہو کھویا ہمارے ہاتھ سے آئینے نے اُسے ایسا جو پاوے آپ کو، مغرور کیوں نہ ہو گیسوئے مشک بُو کو اسے ضد ہے کھولنا پھر زخم دل فگاروں کا ناسُور کیوں نہ ہو صورت تو تیری صحفہء خاطر پہ نقش ہے ظاہر میں اب ہزار تُو...
  17. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    336 کامل ہو اشتیاق تو اتنا نہیں ہے دُور حشرِ دِگر پہ وعدہء دیدار کیوں نہ ہو گُل گشت کا بھی لطف دلِ خوش سے ہے نسیم پیشِ نظر وگرنہ چمن زار کیوں نہ ہو مقصود دردِ دل ہے، نہ اسلام ہے، نہ کفر پھر ہر گلے میں سحبہ و زنار کیوں نہ ہو شاید کہ آوے پُرسشِ احوال کو کبھو عاشق بھلا سا ہووے تو...
  18. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    335 دل صاف ہو تو جلوہ گہہِ یار کیوں نہ ہو آئینہ ہو تو قابلِ دیدار کیوں نہ ہو عالم تمام اس کا گرفتار کیوں نہ ہو وہ ناز پیشہ ایک ہی عیار، کیوں نہ ہو رحمت غض میں نسبتِ برق و سحاب ہے جس کو شعور ہو تو گنہ گار کیوں نہ ہو دشمن تو اک طرف کا سبب رشک کا ہے یاں در کا شگاف و رخنہء دیوار کیوں...
  19. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    334 کون کہتا ہے نہ غیروں پہ تم امداد کرو ہم فراموش ہوؤں کو بھی کبھو یاد کرو ہیں کہاں مجھ سے وفا پیشہ، نہ بیداد کرو نہ کرو ایسا کہ پھر میرے تئیں یاد کرو ایسے ہم پیشہ کہاں ہوتے ہیں اے غم زدگاں! مرگِ مجنوں پہ کُڑھو، ماتم ِ فرہاد کرو اے اسیرانِ تہِ دام! نہ تڑپو اتنا تا نہ بدنام کہیں...
  20. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    333 شیخ جی آؤ، مصلے گروِ جام کرو جنسِ تقویٰ کے تئیں صرفِ مئے جام کرو فرشِ مستاں کرو، سجادہء بے تہ کے تئیں مے کی تعظیم کرو، شیشے کا اکرام کرو دامنِ پاک کو آلودہ رکھو بادے سے آپ کو مغ بچوں کے قابلِ دشنام کرو نیک نامی و تفاوت کو دعا جلد کہو دین و دل پیش کشِ سادہء خود کام کرو ننگ و...
Top