نتائج تلاش

  1. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    362 ہے غزل میر یہ شفائی کی ہم نے بھی طبع آزمائی کی اُس کے ایفائے عہد تک نہ جیے عمر نے ہم سے بے وفائی کی وصل کے دن کی آرزو ہی رہی شب نہ آخر ہوئی جدائی کی اسی تقریب اُس گلی میں رہے منتیں ہیں شکستہ پائی کی کاسہء چشم لے کے جوں نرگس ہم نے دیدار کی گدائی کی زور و زر کچھ نہ تھا تو...
  2. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    361 یہ چشم آئنہ دارِ رُو تھی کسو کی نظر اِس طرف بھی کبھو تھی کسو کی سحر پائے گُل بے خودی ہم کو آئی کہ اُس سُست پیماں میں بُو تھی کسو کی نہ ٹھہری ٹک اک جان برلب رمیدہ ہمیں مدعا گفتگو تھی کسو کی جلایا شب اک شعلہء دل نے ہم کو کہ اُس تند سرکش میں خُو تھی کسو کی جلایا شب اک شعلہء دل...
  3. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    360 آخر ہماری خاک بھی برباد ہوگئی اُس کی ہوا میں ہم پہ تو بیداد ہوگئی دل کس قدر شکستہ ہوا تھا کہ رات میر آئی جو بات لب پہ سو فریاد ہو گئی
  4. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    359 تابِ دل صرفِ جدائی ہوچکی یعنی طاقت آزمائی ہوچکی چُھوٹتا کب ہے اسیرِ خوش زباں جیتے جی اپنی رہائی ہوچکی آگے ہو مسجد کے نکلی اُس کی راہ شیخ سے اب پارسائی ہوچکی ایک بوسہ مانگتے لڑنے لگے اتنے ہی میں آشنائی ہوچکی آج پھر تھا بے حمیت میر واں کل لڑائی سی لڑائی ہوچکی
  5. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    ی۔ ے دل کو تسکین نہیں اشکِ دما دم سے بھی اس زمانے میں گئی ہے برکتِ غم سے بھی ہم نشیں کیا کہوں اُس رشکِ مہ تاباں بن صبح عید اپنی ہے بدتر شبِ ماتم سے بھی کاش اے جانِ الم ناک نکل جاوے تُو اب تو دیکھا نہیں جاتا پہ ستم ہم سے بھی آخرِ کار محبت میں نہ نکلا کچھ کام سینہ چاک و دلِ پژ...
  6. وہاب اعجاز خان

    بوجھو تو جانیں

    پہیلی بوجھنا ایک طرح سے غور و فکر کا کام ہے۔ اس کے لیے ذہانت کی بھی ضرورت ہوتی لیکن سب سے زیادہ ضروری بات پہیلی کی زبان کو سمجھنے کی ہے۔ اگرپہیلی کی زبان سمجھ میں آجائے اور مفہوم واضح ہو تو ہر پہیلی میں کچھ ایسے الفاظ یا اشارے موجود ہوتے ہیں۔ جو پہیلی کے جواب کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔ پہیلیاں...
  7. وہاب اعجاز خان

    شعر جو ضرب المثل بنے

    میر کے دو اور اشعار تیرے فراق میں جیسے خیال مفلس کا گئی ہے فکرِ پریشاں کہاں کہاں میری آن میں کچھ ہیں‌آن میں کچھ ہیں تحفہء روزگار ہیں ہم بھی
  8. وہاب اعجاز خان

    ’کان‘ بھی یا رب کئی دیےہوتے

    ہاں وہ نہیں‌خدا پرست جاؤ وہ بے وفا سہی جس کو ہو دین و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں
  9. وہاب اعجاز خان

    شاعری ، اپنی پسند کی ،

    جواب عباس تابش کا ایک شعر اب تو جیسے عشق کرنا نوکری کرنا ہوا پوچھتے ہیں اس میں کتنا تجربہ رکھتا ہوں میں
  10. وہاب اعجاز خان

    عباس تابش دشت میں پیاس بجھاتے ہوئے مرجاتے ہیں - عباس تابش

    غزل دشت میں پیاس بجھاتے ہوئے مرجاتے ہیں ہم پرندے کہیں جاتے ہوئے مر جاتے ہیں ہم ہیں سوکھے ہوئے تالاب پہ بیٹھے ہوئے ہنس جو تعلق کو نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں گھر پہنچتا ہے کوئی اور ہمارے جیسا ہم ترے شہر سے جاتے ہوئے مر جاتے ہیں کس طرح لوگ چلے جاتے ہیں اُٹھ کر چپ چاپ ہم تو یہ دھیان میں لاتے...
  11. وہاب اعجاز خان

    ظلم

    جواب اس حوالے سے ساحر کی ایک نظم خون پھر خون ہے ظلم پھر ظلم ہے ، بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا خاکِ صحرا پہ جمے یا کفِ قاتل پہ جمے فرق انصاف پہ یا پائے سلاسل پہ جمے تیغ بیداد پہ، با لاشہ بسمل پہ جمے خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا لاکھ بیٹھے...
  12. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    357 کیا موافق ہو دوا عشق کے بیمار کے ساتھ جی ہی جاتے نظر آئے ہیں اس آزار کے ساتھ رات مجلس میں تری ہم بھی کھڑے تھے چپکے جیسے تصویر لگا دے کوئی دیوار کے ساتھ مر گئے پھر بھی کھلی رہ گئیں آنکھیں اپنی کون اُس طرح مُوا حسرتِ دیدار کے ساتھ شوق کا کام کھنچا دور کہ اب مہر مثال چشمِ مشتاق...
  13. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    356 ہم سے کچھ آگے زمانے میں ہوا کیا کیا کچھ تو بھی ہم غافلوں نے آکے کیا، کیا کیا کچھ کیا کہوں تجھ سے کہ کیا دیکھا ہے تجھ میں مَیں نے عشوہ ، غمزہ و انداز و ادا ، کیا کیا کچھ دل گیا، ہوش گیا، صبر گیا، جی بھی گیا شغل میں غم کے ترے ہم سے گیا کیا کیا کچھ آہ مت پوچھ ستم گار کہ تجھ سے تھی...
  14. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    355 جز جرمِ عشق کوئی بھی ثابت کیا گناہ ناحق ہماری جان لی، اچھے ہو، واہ واہ! اب کیسا چاک چاک ہو دل، اس کے ہجر میں گھتواں تو لختِ دل سے نکلتی ہے میری آہ بے تابیوں کو سونپ نہ دینا کہیں مجھے اے صبر میں نے آن کے لیے ہے تری پناہ خوں بستہ بارے رہنے لگی اب تو یہ مژہ آنسو کی بوند جس سے...
  15. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    354 جو ہوشیار ہو، سو آج ہو شراب زدہ زمین مے کدہ یک دست ہے گی آب زدہ بنے یہ کیوں کے ملے تُو ہی ، یا ہمیں سمجھیں ہم اضطراب زدہ ، اورتُو حجاب ذدہ کرے ہے جس کو سلامت جہاں وہ میں ہی ہوں اجل رسیدہ، جفا دیدہ، اضطراب زدہ جدا ہو رخ سے تری زلف میں نہ کیوں دل جائے پناہ لیتے ہیں سائے کی، آفتاب...
  16. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    353 اب حال اپنا اُس کے ہے دل خواب کیا پوچھتے ہو، الحمد اللہ مر جاؤ کوئی پروا نہیں ہے کتنا ہے مغرور، اللہ اللہ پیرِ مغاں سے بے اعتقادی استغفر اللہ! ، استغفر اللہ! کہتے ہیں اس کے تو منھ لگے گا ہو یوں ہی یارب! جوں ہے یہ افواہ مجرم ہوئے ہم دل دے کے ورنہ کس کو کسو سے ہوتی نہیں چاہ...
  17. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    352 جی چاہے مل کسو سے یا سب سے تُو جدا رہ پر ہو سکے تو پیارے ٹک دل کا آشنا رہ کل بے تکلفی میں لطف اُس بدن کا دیکھا نکلا نہ کر قبا سے اے گُل بس اب ڈھپا رہ عاشق غیور جی دے اوراُس طرف نہ دیکھے وہ آنکھ جو چھپاوے تو تُو بھی ٹک کھنچا رہ ہر مشتِ کاک یاں کی چاہے ہے اک تاء مل بن سوچے راہ...
  18. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    351 دل پُر خوں ہے یہاں، تجھ کو گماں ہے شیشہ شیخ کیوں مست ہوا ہے تُو ، کہاں ہے شیشہ شیشہ بازی تو تنک دیکھنے آ، آنکھوں کی ہر پلک پر مرے اشکوں سے رواں ہے شیشہ منزل ہستی کو پہنچے ہے اُنھیں سے عالم نشہء مے بلد و سنگ نشاں ہے شیشہ درمیاں حلقہء مستاں کے شب اُس کی جا تھی دور ساغر میں مگر...
  19. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    350 ہم ہیں مجروح، ماجرا ہے یہ وہ نمک چھڑکے ہے، مزا ہے یہ آگ تھے ابتدائے عشق میں ہم اب جو ہیں خاک، انتہا ہے یہ بودِ آدم نمودِ شبنم ہے ایک دو دم میں پھر ہوا ہے یہ شکر اُس کی جفا کا ہو نہ سکا دل سے اپنے ہمیں گلا ہے یہ شور ہے اپنے حشر ہے پر وہ یوں نہیں جانتا کہ کیا ہے یہ بس ہوا...
  20. وہاب اعجاز خان

    ~ الیکشن 2006 ~

    یار محب کیا یاد کرو گے کس سخی سےپالاپڑا تھا۔ اب پلڑا برابر ہے۔ 4 4 سے
Top