اصلاح کے بعد کچھ اضافے کے ساتھ غزل پیش ہے
غزل
غم جاناں کی صورت میں کوئی ذندان رکھا ہے
مری تشنہ نگاہوں میں چھپا طوفان رکھا ہے
پھٹی تصویریں ماضی کی ہیں کچھ دیمک زدہ یادیں
جلا دو گھر یہ بوسیدہ سا کچھ سامان رکھا ہے
جُدای میں گھٹن محسوس ہوتی ہے مگر جاناں
ہوا کے واسطے ہم نے در امکان رکھا ہے...