یوں تو کیا چیز زندگی میں نہیں
جیسے سوچی تھی اپنے جی میں نہیں
ہو کلیسا،حرم کہ بت خانہ
فرق ان میں ہی،بندگی میں نہیں
ایک انساں ہے ،زندگی جیسا
اور وہ میری زندگی میں نہیں
تُو نہیں،تیرا غم ہے چاروں جانب
جس طرح چاند،چاندنی میں نہیں
تہی بھی ہوں تو پیمانے حسیں معلوم ہوتے ہیں
حقائق سے تو افسانے حسیں معلوم ہوتے ہیں
ملاقاتیں مسلسل ہوں تو دلچسپی نہیں رہتی
یہ بے ترتیب یارانے حسیں معلوم ہوتے ہیں
حرم والوں تمہیں سجدوں کا کیوں کر ہوش رہتا ہے
درِ جاناں پہ ہم تو سر جھکانا بھول جاتے ہیں
تیری زلفوں کا جب کوئی فسانہ چھیڑ دیتا ہے
ستارے رات سے دامن چھڑانا بھول جاتے ہیں
اے خدا ضبط کے زنداں میں کوئی در کر دے
یا اُسے موم بنا یا مجھے پتّھر کر دے
پر کئیے ہیں جو عطا، طاقتِ پرواز بھی دے
یا تو میں کھل کے اُڑوں یا مجھے بے پر کردے
میرے حال پہ حیرت کیسی درد کے تنہا موسم میں
پتّھر بھی رو پڑتے ہیں انساں تو پھر انساں ہوا
صحرا کی منہ زور ہوائیں اوروں سے منسوب ہوئیں
مفت میں ہم آوارہ ٹھہرے مفت میں گھر ویران ہوا