پیڑ کو دیمک لگ جائے یا آدم زاد کو غم
دونوں کو ہی امجد ہم نے بچتے دیکھا کم
ہنس پڑتا ہے بہت زیادہ غم میں بھی انسان
بہت خوشی سے بھی تو آنکھیں ہو جاتی ہیں نم
بے زمین لوگوں کو
بے قرار آنکھوں کو
بد نصیب قدموں کو
جس طرف بھی لے جائیں
راستوں کی مرضی ہے
بے نشاں جزیروں پر
بد گماں شہروں میں
بے زباں مسافر کو
جس طرف بھی بٹھکا دیں
راستوں کی مرضی ہے
روک لیں یا بڑھنے دیں
تھام لیں یا گرنے دیں
وصل کی لکیروں کو
توڑ دیں یا ملنے دیں
راستوں کی مرضی ہے...
اک عمر نمو کی خواہش میں موسم کے جبر سہے تو کھلا
ہر خوشبو عام نہیں ہوتی،ہر پھول گلاب نہیں ہوتا
کبھی عشق کرو اور پھر دیکھو اس آگ میں جلتے رہنے سے
کبھی دل پہ آنچ نہیں آتی کبھی رنگ خراب نہیں ہوتا
تنہائی
تنہائی کا دکھ گہرا تھا
میں دریا دریا رویا تھا
اک لہر ہی نہ سنبھلی ورنہ
میں طوفانوں سے کھیلا تھا
تنہائی کا تنہا سایہ
دیر سے میرے ساتھ لگا تھا
چھوڑ گئے جب سارے ساتھی
تنہائی نے ساتھ دیا تھا
سوکھ گئی جب سکھ کی ڈالی
تنہائی کا پھول کھِلا تھا
تنہائی میں یادِ خدا تھی
تنہائی میں خوفِ خدا تھا...
کیوں جاگتے ہو
کیوں جاگتے ہو
کیا سوچتے ہو
کچھ ہم سے کہو
تنہا نہ رہو
سوچا نہ کرو
یادوں کے برستے بادل کو پلکوں پہ سجانا ٹھیک نہیں
جو اپنے بس کی بات نہ ہو اسکو دہرانا ٹھیک نہیں
ایسے نہ کریدو زخموں کو
ایسے نہ میری جان کرو
مجھ پر اتنا احسان کرو
اب رات کی پلکیں بھیگ چلیں
اور
چاند بھی...