نہ گلہ کیا نہ خفا ہوئے،یونہی راستے میں جدا ہوئے
نہ تُو بے وفا،نہ میں بے وفا،جو گذر گیا سو گذر گیا
یہ سفر بھی کتنا طویل ہے،یہاں وقت کتنا قلیل ہے
کیا لوٹ کو کوئی آئے گا،جو گذر گیا،سو گذر گیا
بڑھا کے اس سے راہ و رسم اب یہ سوچتے ہیں
وہ بہت تھا جو رشتہ دعا سلام کا تھا
ہر اک کے بس میں کہاں تھا کہ سو رہے سرِ شام
یہ کام بھی تیرے آوارگان ِ شام کا تھا
دم ِ واپسی اُسے کیا ہوا،نہ وہ روشنی نہ وہ تازگی
وہ ستارا کیسے بکھر گیا وہ تو اپنی مثال آپ تھا
میرے ساتھ لگ کر وہ رو دیا مجھے فخری وہ اتنا کہہ سکا
جسے جانتا تھا میں زندگی،وہ میرا وہم خیال تھا
ہجوم ِ رنگ و بو میں سوزِ غم کو بھول جاتا ہوں
چٹکتا ہے کوئی غنچہ تو میں بھی مسکراتا ہوں
وہاں بھی اک تغافل ہے یہاں بھی بے نیازی ہے
وہ مجھ کو آزماتے ہیں میں انکو آزماتا ہوں