وہ جس کے دلنشیں تاروں میں نغموں کی روانی تھی
وہی سازِ محبت آج اتنا بے صدا کیوں ہے
اگر مجھ سے بچھڑنے کا نہیں ہے غم اسے خالد
تو پھر خاموش راتوں میں وہ اکثر جاگتا کیوں ہے؟؟
درخت ِ جاں پہ عذاب رت تھی نہ برگ جاگے نہ پھول آئے
بہار وادی سے جتنے پنچھی اِدھر کو آئے ملول آئے
وہ ساری خوشیاں جو اس نے چاہیں اُٹھا کے جھولی میں اپنی رکھ لیں
ہمارے حصّے میں عذر آئے،جواز آئے،اُصول آئے