بساط ِ جاں پہ اُترتے ہیں کس طرح
شب و روز دل پہ عتاب اُترتے ہیں کس طرح
کبھی عشق ہو تو پتہ چلے
یہ جو لوگ سے ہیں چُھپے ہوئے پس ِ دوستاں
تو یہ کون ہیں؟
یہ جو روگ ہیں چھپے ہوئے پس ِ جسم و جاں
تو یہ کس لیئے؟
یہ جو کان ہیں میرے آہٹوں پہ لگے ہوئے
تو یہ کیوں بھلا؟
یہ جو اضطراب ہے رچا ہوا وجود...