نتائج تلاش

  1. نوید ناظم

    نہ گھبرا دلِ بے قرار

    دنیا میں اتنا ظلم ہے کہ اگر انسان بیان کرنا شروع کر دے تو ساری زندگی اس میں صَرف ہو سکتی ہے۔ مگر کیا زندگی صِرف اسی میں صَرف ہونی چاہیے۔۔۔۔ ظلم آدمی کی فطرت میں ہے اور سب سے پہلا ظلم تو اس نے خود اپنے ساتھ کیا، پھر دنیا ابھی آباد بھی نہ ہو پائی کہ ظلمِ عظیم یعنی قتل تک بات آئی۔ مقصد یہ کہ انسان...
  2. نوید ناظم

    دل کے کچھ موسم بھی ہو سکتے ہیں نا

    اب خوشی پھرغم بھی ہو سکتے ہیں نا دل کے کچھ موسم بھی ہو سکتے ہیں نا فاصلے تم نے جو ہم سے رکھ لیے سچ بتاؤ، کم بھی ہوسکتے ہیں نا؟ جن دِیوں کو لے کے تم مغرور ہو وہ کبھی مدھم بھی ہو سکتے ہیں نا چاپ سے پاؤں کی مجنوں مت کہو دشتِ ویراں! ہم بھی ہو سکتے ہیں نا میری قسمت اُس کی زلفوں جیسی ہے پھر تو...
  3. نوید ناظم

    دل اُس سے بچھڑ کر بہل کیوں گیا ہے

    دل اُس سے بچھڑ کر بہل کیوں گیا ہے یہ کم ظرف اتنا بدل کیوں گیا ہے وہ جس نے مِرے گھر کو چنگاری دی تھی وہ اب پوچھتا ہے کہ جل کیوں گیا ہے مِری شب کو امید جس سے لگی تھی وہ سورج کہیں دُور ڈھل کیوں گیا ہے محبت نہیں ہے اگر اُس کو مجھ سے مرا نام سن کر مچل کیوں گیا ہے تری یاد کا اژدہا مجھ کو آخر...
  4. نوید ناظم

    جلتا ہوا چراغ تو اب بھی ہوا میں ہے

    تُو روشنی کا سوچ کے یوں ہی انا میں ہے جلتا ہوا چراغ تو اب بھی ہوا میں ہے ہم مے کشوں کا علم ہے سارے جہان کو واعظ بتا ذرا جو کہ تیری قبا میں ہے توحید میں ہیں دونوں ہے تھوڑا سا فرق یہ بت پر یقیں ہمیں جو تمھارا خدا میں ہے بے سمت پھر رہا ہے مگر بیٹھتا نہیں یہ دل غبار ہے کوئی یا پھر خلا میں ہے...
  5. نوید ناظم

    میں جس سے قائم ہوں تُو وہ جوہر نہیں سمجھتا

    ہجومِ یاراں بھی ہو، میں کم تر نہیں سمجھتا پہ دردِ تنہائی سے تو بڑھ کر نہیں سمجھتا مجھے وہ اندر سے جان پائے یہ چاہتا ہوں وہ جو مِری بات کو بھی اکثر نہیں سمجھتا اگر مِرا غم نہ ہو تو میں بھی نہیں رہوں گا میں جس سے قائم ہوں تُو وہ جوہر نہیں سمجھتا خدا نما ہے مِرے لیے جو، اُسے گلہ ہے کہ میں اُسے...
  6. نوید ناظم

    کوئی رستہ ہو اندھیروں کو جلایا جائے

    اب چراغ ان کو کسی طور بنایا جائے کوئی رستہ ہو اندھیروں کو جلایا جائے رات تاریک ہو پھر ساتھ نہیں ہوتا کوئی چھوڑ کر ہم کو سرِ شام یہ سایہ جائے بِیج لیتے ہیں سکوں درد کے اندر جا کر اب کے صحرا میں کوئی پھول اُگایا جائے دشت کی دھوپ نے مارا ہے جلا کر مجھ کو اب مِری راکھ کو دریا میں بہایا جائے اک...
  7. نوید ناظم

    محبت کا مال اور مال کی محبت

    دماغ مال کی طرف راغب ہوتا ہے اور دل محبت کی طرف۔ دولت سے محبت ہو جائے تو انسان غریب ہو جاتا ہے اور اگر محبت کی دولت مل جائے تو بندہ امیر ہو جاتا ہے۔ مال سے صرف بے جان چیزیں خریدی جا سکتی ہیں مگر محبت سے جان تک خریدی جا سکتی ہے۔ مال سے وجود کی راحت کا سامان ہوتا ہے اور محبت سے روح کی راحت کا۔۔۔...
  8. نوید ناظم

    زندگی ریت کی گرتی ہوئی دیوار ہے بس

    دب کے مرجائیں گے اس میں کہ یہ اک بار ہے بس زندگی ریت کی گرتی ہوئی دیوار ہے بس ایک تُو، جو کہ روا رکھتا ہے اِس دل پہ ستم اور اک دل جو کہ تیرا ہی طرف دار ہے بس مجھ کو ناصح نے کہا ہے کہ محبت سے بچوں بات اچھی تو ہے، لیکن یہ کہ دشوار ہے بس 'اشک' قیمت ہے مِرے دل کی خریدے جو کوئی اس پہ بیچوں گا یہی...
  9. نوید ناظم

    تیرا عکس ہے لیکن ہم دکھائی دیتے ہیں

    روشنی میں اندھیرے ضم دکھائی دیتے ہیں اب چراغ جلتے بھی کم دکھائی دیتے ہیں دوست! یہ بھی ممکن ہے ان کے دل میں صحرا ہوں وہ تجھے جو باہر سے نم دکھائی دیتے ہیں کیا ہنر ہے آئینہ ساز، داد بنتی ہے! تیرا عکس ہے لیکن ہم دکھائی دیتے ہیں دل! مجھے تو لگتا ہے یہ شکنجہ ہے ان کا یہ جو ان کی زلفوں میں خم...
  10. نوید ناظم

    زبانِ فارسی سے متعلق سوالات

    احباب! ایسے خواتین و حضرات جو فارسی زبان سے دلچسپی رکھتے ہیں، اگر آپ کے اذہان میں اس زبان سے متعلق سوالات ہیں تو یہاں تشریف لا کر پوچھ سکتے ہیں۔ اگر اللہ نے چاہا تو حسان خان بھائی اور دیگر اساتذہ ہماری رہنمائی فرمائیں گے۔ یوں ان کے علم کے خیرات نکلے گی اور ہمارا بھلا ہو گا۔ سب سے پہلے ایک سوال...
  11. نوید ناظم

    یک شعر

    یاِرِ من از نگاہِ تو من زندہ ام ایں تماشا عجب ست کہ من دیدہ ام
  12. نوید ناظم

    اتفاقِ رائے

    جس طرح یہ ممکن نہیں کہ سب کے چہرے ایک جیسے ہو جائیں اُسی طرح سب کی رائے کا ایک ہو جانا بھی ممکن نہیں۔ ہر رائے سے اتفاقِ رائے ضروری ہے اور نہ قدرت کا مدعا یہ ہے۔ اگر ایسا ہو جائے تو رنگ رنگ کے رنگ بے رنگ ہو کے رہ جائیں۔ ہر وجود ایک جمود کا شکار ہونے لگ جائے۔ جس طرح حرکت کے نہ ہونے سے زندگی رک...
  13. نوید ناظم

    پیاس کہتی تھی کہ مجھ سے کوئی دریا نکلے

    پیاس کہتی تھی کہ مجھ سے کوئی دریا نکلے لیکن ایسا نہ ہوا، پھر وہی صحرا نکلے مجھ کو معلوم ہے رشتوں کا تقدس لیکن اب تو اللہ کرے کوئی نہ اپنا نکلے گھر بلندی پہ بنانے سے نہیں ہوتا کچھ کوئی انسان جب اندر سے ہی بونا نکلے وہ مجھےچھوڑ کے جاتا ہے تو بے شک جائے جو لگا رہتا ہے دل کو، وہ تو کھٹکا نکلے...
  14. نوید ناظم

    پھر اک زخم کھانے کا سوچا ہے میں نے

    پھر اک زخم کھانے کا سوچا ہے میں نے اب اُس کو بھُلانے کا سوچا ہے میں نے میاں دشت میں خاص وحشت نہیں ہے یہاں سے بھی جانے کا سوچا ہے میں نے میں تجھ سے بچھڑ کر بھی اب خوش رہوں گا تِرا دل جلانے کا سوچا ہے میں نے خزاں سے بہاریں نکالوں گا اک کے نیا گُل کِھلانے کا سوچا ہے میں نے ابھی سے مِرا گھر...
  15. نوید ناظم

    بات تشنہ لبی کی تو ہے ہی نہیں

    بات تشنہ لبی کی تو ہے ہی نہیں ساقیا! جام خالی تو ہے ہی نہیں جس کو جب بھی ہُوا ہے مکمل ہُوا عشق کا کام جُزوی تو ہے ہی نہیں لوگ کہتے ہیں تجھ میں نہیں ہے وفا دیکھ یہ بات میری تو ہے ہی نہیں یہ محبت سلگتی ہوئی آگ ہے اس کے عنصر میں مٹی تو ہے نہیں رنگ کو چھوڑ بس آنسوؤں کو سمجھ خون ہے خون، پانی تو...
  16. نوید ناظم

    وہ مکاں جس کو بنانے میں زمانے لگ گئے تھے

    وہ مکاں جس کو بنانے میں زمانے لگ گئے تھے لوگ جب آئے تو آتے ہی گرانے لگ گئے تھے وہ ہمیں ہر شخص کے اندر دکھائی دے رہا تھا اس لیے ہم بھی ہر اک کو دکھ سنانے لگ گئے تھے کون سا گھُن ہے جو اندر سے تمھیں یوں کھا گیا ہے ہم کو تو پھر بھی چلو کچھ غم پرانے لگ گئے تھے ہاتھ کیوں ہیں خاک آلود اس کے پیچھے...
  17. نوید ناظم

    درد، غم، آہ، آنسو، کچھ لیجے

    پوچھتے ہو پتہ دِوانے سے کیا لگے اس کو آشیانے سے میں تو اُس کو بھی کھو چکا ہوں اب یاد آیا مجھے کمانے سے ہے مِرا بھی خمیر سونے کا میں نکھر جاؤں گا جلانے سے میری ہستی نہیں رہے گی بس اور کیا ہو گا اُس کے جانے سے مجھ کو سچ بولنے کی عادت ہے میری بنتی نہیں زمانے سے درد، غم، آہ، آنسو، کچھ لیجے ایسے...
  18. نوید ناظم

    مجبوری

    انسان پیدا ہوتا ہے اور مر جاتا ہے، یہ اس کی مجبوری ہے۔ گویا انسان پیدا ہونے سے لے کر مرنے تک مجبوری کے حصار میں ہے۔ بھوک لگنے کا عمل فطری ہے اور پھر بندہ کھانے کی تلاش میں لگ جاتا ہے، بالکل اس طرح جیسے کہ کوئی مشین آٹو پر لگی ہو۔ اسی طرح پیاس انسان کو مجبور کرتی ہے کہ یہ پانی کو تلاش کرے۔ نیند...
  19. نوید ناظم

    بڑے بے خود ہیں تیرے شہر سے آئے ہوئے بندے

    بڑے بے خود ہیں تیرے شہر سے آئے ہوئے بندے بتاؤ اب کہاں جائیں گے گھبرائے ہوئے بندے ہے جب تک گردشِ خوں رک نہیں سکتا کوئی انساں وہ دیکھو چل پڑے ہیں پھر سے سستائے ہوئے بندے ہماری بھی تو عادت ہے کہ ہم نغمے سناتے ہیں ہمیں اچھا نہیں جانیں گے ہکلائے ہوئے بندے مِرے سینے میں کچھ یادیں ابھی تک سر اُٹھاتی...
  20. نوید ناظم

    ہم سفر ہو کے جو رابطے میں نہیں

    ہم سفر ہو کے جو رابطے میں نہیں میں تو اُس شخص کے قافلے میں نہیں عکس دھندلا جو ہے پھر کوئی بات ہے نقص ہر بار تو آئنے میں نہیں کوئی ایسا ہے جس کا تُو مرکز نہ ہو کون ہے جو تِرے دائرے میں نہیں کچھ طبیعت میں آوارگی ہے تو کچھ لطف اک جگہ پر بیٹھنے میں نہیں میں اُسے کن لکیروں میں پھر ڈھونڈتا جو سِرے...
Top