نتائج تلاش

  1. نوید ناظم

    تعاون

    زندگی میں تعاون وہی کر سکتے ہیں جو زندہ ہوں۔۔۔ مفاد پرست، مُردے کی طرح ہوتا ہے' اس کے نصیب میں یہ سعادت نہیں کہ وہ کسی کے ساتھ تعاون کر سکے۔ اصل میں یہ زندگی تعاون ہی سے عبارت ہے۔ اگر پیدا ہونے والے بچے کے ساتھ تعاون نہ کیا جائے تو وہ کبھی پروان نہ چڑھ سکے۔ تعاون کا یہ جذبہ ماں کو پہلے ہی ودیعت...
  2. نوید ناظم

    مجھے ایسے مارا نہیں جا سکے گا

    فعولن فعولن فعولن فعولن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زباں اب مِرا ساتھ دیتی نہیں ہے اب اُس کو پکارا نہیں جا سکے گا وہ اک آسماں ہےجسے چاہ کر بھی زمیں پر اُتارا نہیں جا سکے گا نمی اِس کی بنیاد تک آگئی ہے یہ گھر اب سنوارا نہیں جا سکے گا محبت میں نقصان اُٹھایا ہے تم نے؟ میاں یہ خسارہ نہیں جا سکے گا! جس...
  3. نوید ناظم

    عشق دی اگ وچ سڑدے رہ گے

    عشق دی اگ وچ سڑدے رہ گے اندروں اندری مَردے رہ گے جاون والے ٹر گے چھڈ کے بھاویں مِنتاں کردے رہ گے ہنجواں ساڈے حال چا کھولے کہڑی گل دے پردے رہ گے آس دا پنچھی کولوں اُڈیا ایس نوں پھڑدے پھڑدے رہ گے دل نے ساڈی ہِک نہ مَنّی ساری عمراں لڑدے رہ گے یاد تیری دا سوہنا نگ سی ہجر انگوٹھی جڑدے رہ گے...
  4. نوید ناظم

    دل بھی سینے میں سنبھالا نہ گیا

    بحرِ رمل ۔۔۔۔۔۔۔۔ آہ بھرتا ہے یہ نالہ نہ گیا دل بھی سینے میں سنبھالا نہ گیا یہ محبت وہ عجب مسئلہ ہے کوئی حل جس کا نکالا نہ گیا کون کرتا ہے وفا کون جفا ہم سے باتوں کو اچھالا نہ گیا تیری یاد آئی جونہی رات پڑی یوں اندھیرے سے اجالا نہ گیا آنسو آنکھوں کا بنایا اس کو جو غم اشعار میں ڈھالا نہ گیا...
  5. نوید ناظم

    اب تو دل میں کوئی آرزو ہی نہیں

    فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صرف ایسا نہیں ہے کہ تُو ہی نہیں اب تو دل میں کوئی آرزو ہی نہیں یہ بہاریں بھی ہم کو خزاں جیسی ہیں ان بہاروں کی اب جستجو ہی نہیں ہم عدم سے جو آئیں ہیں کچھ راز ہے مدعا صرف یہ رنگ و بُو ہی نہیں کیوں سمجھتے نہیں وہ مِری بات کو خیر اُن سے تو اب گفتگو ہی نہیں...
  6. نوید ناظم

    تعلق

    تعلق بنانا انسان کی سرشت میں ہے۔ انسان کے پیدا ہوتے ہی تعلق پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ بلکہ پیدا ہونے سے بھی پہلے ماں کا تعلق بچے کے ساتھ بن چکا ہوتا ہے۔ تعلق انسان کے ساتھ ساتھ چلتا ہے اور انسان تعلق کے ساتھ ساتھ ۔ زندگی کو تعلقات کا مجموعہ کہہ دیا جائے تو اتنا غلط بھی نہ ہو گا۔ انسان جب تک...
  7. نوید ناظم

    ہم دِیوں کو جلا کے چلے جاتے ہیں

    فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ مِرا دل جلا کے چلے جاتے ہیں آ بھی جائیں تو آ کے چلے جاتے ہیں اُن کا در ہے جو ہم سے نہیں چھوٹتا وہ تو دامن چھڑا کے چلے جاتے ہیں دل چُرائے انھیں اک زمانہ ہوا اب تو آنکھیں چُرا کے چلے جاتے ہیں میرے دل کی تو دل میں رہی آج تک لوگ اپنی سنا کے چلے جاتے ہیں...
  8. نوید ناظم

    سب کو یہ بات بتانے سے رہی

    بحرِ رمل ۔۔۔۔۔۔ سب کو یہ بات بتانے سے رہی ہجر میں نیند تو آنے سے رہی وہ نظر آتا ہے چہرے سے مِرے اب محبت تو چھپانے سے رہی یہ کہانی ہے وفا پر مبنی یہ کہانی بھی سنانے سے رہی بات نکلی تو نہ نکلی دل سے آہ بھی عرش پہ جانے سے رہی ایک ہم سے نہ بنی اس کی کبھی ورنہ تو ایک زمانے سے رہی وہ مجھے مل نہ...
  9. نوید ناظم

    محبت میں تو جتنے بھی خسارے تھے ہمارے تھے

    مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محبت میں تو جتنے بھی خسارے تھے ہمارے تھے خدا نے اس میں جو بھی غم اتارے تھے ہمارے تھے یہ بھی ممکن ہے اندازہ نہ ہو اس بات کا اس کو وگرنہ درد اس نے جو نکھارے تھے ہمارے تھے دعا دیتے ہیں طوفانوں کو جب بھی دیکھتے ہیں ہم نہ ہوتے یہ اگر، وہ جو کنارے تھے...
  10. نوید ناظم

    اگر کہیں جو شبِ ہجر کی سحر ہوتی

    مفاعلن فعلاتن مفاعلن فعلن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ رتجگوں میں بھلا کس لیے بسر ہوتی شبِ ہجر کی سحر ہو نہ جاتی گر ہوتی دل اُن پہ آ تو گیا بن گئی مگر جاں پر انھیں بھی کاش کہ بسمل کی کچھ خبر ہوتی حضور ہم سے نہ یوں زندگی کا پوچھیں آپ ہمیں تو ٹھیک تھی جتنی بھی مختصر ہوتی گرا دیا ہے رکاوٹ سمجھ کے لوگوں...
  11. نوید ناظم

    پیاس کا حل کوئی ایسا نکلے

    پیاس کا حل کوئی ایسا نکلے کہ مِری آنکھ سے دریا نکلے بات ظاہر پہ نہیں تھی موقوف میرے اندر بھی تو صحرا نکلے کیسے ڈھونڈوں میں جگہ اُس دل میں کیسے دیوار سے رستہ نکلے کیا کروں رنگ جو ہاتھوں میں ہیں جس سے ملتا ہوں وہ اندھا نکلے کس کا خط کس کو دکھاتا پھر میں شہر جتنے بھی تھے کوفہ نکلے ہوتا ہے...
  12. نوید ناظم

    تعلق اُس سے تھا واجبی سا

    مفاعلاتن مفاعلاتن تعلق اُس سے تھا واجبی سا وہ پھر بھی لگتا تھا زندگی سا اب اُس کو میں کس میں جا کے ڈھونڈوں کوئی بھی ہوتا نہیں کسی سا مِرا تعارف نہیں ہے مجھ سے میں خود کو لگتا ہوں اجنبی سا نہیں ضروری کہ آدمی ہو نظر جو آتا ہے آدمی سا نوید کو کر گیا ہے گھائل وہ دیکھنا اُن کا سرسری سا
  13. نوید ناظم

    جہاں بھی ترے ہجر میں آ گئی شب

    فعولن فعولن فعولن فعولن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جہاں بھی ترے ہجر میں آ گئی شب یہی دل نے سمجھا کہ ہے آخری شب تری یاد کا لمحہ آساں نہ گزرا پھر اللہ اللہ کر کے کٹی شب عجب حادثہ میری آنکھوں نے دیکھا دیے بجھ گئے اور جلتی رہی شب برس ہا برس جس کو دن ہم نے سمجھا پھر آخر پتہ یہ چلا تھی وہ بھی شب نئے سال میں بھی...
  14. نوید ناظم

    وقت اُس سے ملا دے توکیسا رہے

    فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسا لمحہ خدا دے تو کیسا رہے وقت اُس سے ملا دے تو کیسا رہے جو تِرے ہجر میں مجھ پہ بیتی ہے، وہ! کوئی تجھ کوبتا دے تو کیسا رہے عشق کی آگ جو میرے سینے میں ہے وہ بھی اس کو ہوا دے تو کیسا رہے قتل مجھ کو کیا جس نے، آ کے وہی زندگی کی دعا دے تو کیسا رہے جو...
  15. نوید ناظم

    دُکھ

    جب انسان دکھ کو زندگی سے نکالنے کی کوشش کرتا ہے تو اور بھی دکھی ہو جاتا ہے، کیونکہ ایسا ہونا ناممکن ہے۔ آنکھ کا ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ انسان کو رونا بھی پڑے گا۔ کوئی اپنی حسرتوں پر آنسو بہا کر سو جاتا ہے تو کوئی رات بھر جاگتا رہتا ہے۔ ہر آنکھ میں بصارت نہیں ہوتی، مگر آنسو ہر آنکھ میں ہوتے...
  16. نوید ناظم

    آخری خواہش بھی سینے سے نکال آتا ہوں میں؟

    فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آخری خواہش بھی سینے سے نکال آتا ہوں میں؟ اس کو دفنا کر کہیں مٹی بھی ڈال آتا ہوں میں! تا کہ مجھ سے بھی اندھیروں کا گلہ کر دے نہ وہ اُس کے آنگن میں کوئی سورج اچھال آتا ہوں میں کھولتی یادوں میں دل کو پھینک دیتا ہوں کبھی کیسا داروغہ ہوں اپنا دل...
  17. نوید ناظم

    زہر پیتے نہیں چاہے میٹھا لگے

    فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اُس ستم گر کو دریا سے پھر کیا لگے جس کو روتی ہوئی آنکھ صحرا لگے میری مانو محبت سے بچ کے رہو زہر پیتے نہیں چاہے میٹھا لگے میں بظاہر مکمل نظر آتا ہوں مجھ کو اندر سے لیکن ادھورا لگے نا خدا کے لیے یہ سزا ہی بہت میری کشتی کنارے سے اب جا لگے...
  18. نوید ناظم

    ہمیں یہ دشت بھی لگتا ہے اب مکاں کی طرح

    طرحی غزل۔ مفاعلن فعلاتن مفاعلن فعلن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بسا لیا ہے اسے ہم نے آشیاں کی طرح ہمیں یہ دشت بھی لگتا ہے اب مکاں کی طرح وہی تپش ہے، جلا کے بھی راکھ کرتی ہے یہ آگ لگتی ہے مجھ کو مِری فغاں کی طرح وہ محض رسم سمجھتا رہا محبت کو وفا تو اُس نے بھی کی تھی مگر جہاں کی طرح وہ مجھ سے جب...
  19. نوید ناظم

    آسماں بھی اب زمیں پر آ گیا

    فاعلاتن فاعلاتن فاعلن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ظلم ڈھانے کو یہیں پر آ گیا آسماں بھی اب زمیں پر آ گیا عمر بھر چلتا رہا اور ایک دن میں جہاں تھا پھر وہیں پر آ گیا سامنے اُس بت کے میں جھکتا بھلا سجدہ خود میری جبیں پر آ گیا میں چلا لوں گا پڑاؤ کو بھی ساتھ راستے میں جو کہیں پر آ گیا دل جو...
  20. نوید ناظم

    ایڈی سوکھی گل نئیں ہوندی

    ایڈی سوکھی گل نئیں ہوندی عشق دی مشکل حل نئیں ہوندی سحر دی آس نہ لے کے آویں سوہنیا ساڈے ول نئیں ہوندی وٹا وجیا پانی دے وچ ایوں تاں حل چل نئیں ہوندی شام ہجر دی آ جاوے تاں اے جی شام ڈھل نئیں ہوندی ساڈی کی طبیعت ربا نال کسے دے رل نئیں ہوندی آون والیا اج ای آوِیں پیار دے وچ کل نئیں ہوندی سچی گل...
Top