نتائج تلاش

  1. نوید ناظم

    خود اپنے سامنے آجاؤں گا میں

    مفاعیلن مفاعیلن فعولن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خیالوں کی زمیں چاہے کہیں ہو وہیں سے بھاگ کے آ جاؤں گا میں جب اُس کو بھولنے کی بات ہو گی خود اپنے سامنے آ جاؤں گا میں دیے ہاتھوں میں لے کر کہہ رہا ہے ذرا آندھی چلے آ جاؤں گا میں کہو ویرانے سے یہ دشت مِیں ہوں مِرے گھر میں رہے آ جاؤں گا میں جو...
  2. نوید ناظم

    مجھ سے بھی آ کے مل تَو ذرا زندگی کبھی

    طرحی مشاعرے میں کہی گئی غزل۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پوچھوں کہ مجھ سے کیوں نہ تری بن سکی کبھی مجھ سے بھی آ کے مل تَو ذرا زندگی کبھی صدقہ اتار دوں گا اندھیروں کا اس سے میں جو میرے گھر میں آ بھی گئی روشنی کبھی لگتا ہے صاف اب بھی کناروں کو...
  3. نوید ناظم

    جو پتھرائی ہوئی آنکھوں سے اک آنسو نکل آئے

    مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو پتھرائی ہوئی آنکھوں سے اک آنسو نکل آئے تو ممکن ہے تِرے غم کا نیا پہلو نکل آئے اندھیروں نے مجھے ایسا شرف بخشا کہ اب بھی میں جو مٹھی کھول دوں تو اس میں سے جگنو نکل آئے مِرے دل کو غموں نے ہر طرف سے گھیر ڈالا ہے کسی...
  4. نوید ناظم

    پستی

    ہر وہ خیال اور ہر وہ عمل جو انسان کو اس کے شرف سے گرا دے، پستی کہلائے گا۔ وہ سفر جو اسے اللہ سے دور کر دے، پستی کا سفر ہے۔ خود پسندی، غرور، ہوس، حسد اور بغض یہ سب پستی کی باتیں ہیں۔ بعض اوقات دنیاوی طور پر بلند ہونے کی خواہش انسان کو پستی کی طرف دھکیل دیتی ہے۔ بڑا مرتبہ چاہتے چاہتے انسان...
  5. نوید ناظم

    مصحفِ غم کی تفسیر کوئی نہیں

    میں بھی چپ ہوں کہ تدبیر کوئی نہیں مصحفِ غم کی تفسیر کوئی نہیں اور آراستہ کر مِری قید کو میرے پاؤں میں زنجیر کوئی نہیں وہ ستم گر مجھے پیار سے دیکھ لے ایسا نسخہءِ تسخیر کوئی نہیں؟ وصل کے خواب بس آنکھ کا بوجھ ہیں ایسے خوابوں کی تعبیر کوئی نہیں یہ سمجھتے ہیں غم کو متاعِ حیات ان فقیروں کی جاگیر...
  6. نوید ناظم

    دیکھیے کیا معجزہ ہوتا رہا

    فاعلاتن فاعلاتن فاعلن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دیکھیے کیا معجزہ ہوتا رہا آپ کا وعدہ وفا ہوتا رہا وقت نے کوڑھی بنایا شہر کو اور میں بھی آئنہ ہوتا رہا یہ بھی دیکھو نا کہ پر کاٹے گئے یوں تو ہر پنچھی رِہا ہوتا رہا جو اُگا اک بار دل میں غم کا پیڑ اس کا سایہ پھر گھنا ہوتا رہا شَیخ سے...
  7. نوید ناظم

    ستم گر آنکھ کو دریا نہ کر دے

    مفاعیلن مفاعیلن فعولن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مِرے سب خواب بہہ جایئں گے ورنہ ستم گر آنکھ کو دریا نہ کر دے یہاں ہر اک کی مٹھی میں ہے پتھر کسی دن وہ مجھے شیشہ نہ کر دے وہ ایڑھی مار دے بنجر زمیں پر مجھے کہنا اگر چشمہ نہ کر دے جو خواہش قتل کر کے گاڑ دی تھی اُسے تیری نظر زندہ نہ کر دے کہا تو...
  8. نوید ناظم

    یونہی رستے کو منزل مت سمجھنا

    مفاعیلن مفاعیلن فعولن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نظر کا دھوکا ہے جو سامنے ہے یونہی رستے کو منزل مت سمجھنا تمھیں سمجھا رہا ہوں ڈوب کر میں ہر اک ساحل کو ساحل مت سمجھنا اگر وہ مار دے مجھ کو تو پھر بھی خدارا اُس کو قاتل مت سمجھنا بس اک دھوکا ہے اس دنیا کی رونق تُو ویرانے کو محفل مت سمجھنا جو دل...
  9. نوید ناظم

    ٹھیک ہے، اب جو یوں ہے تو یوں ہی سہی

    فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خوش تو ہوں درد میرے دروں ہی سہی ٹھیک ہے، اب جو یوں ہے تو یوں ہی سہی عشق ہم کو اگر ہے تو ہے کیا کریں خبط کہہ لو، چلو یہ جنوں ہی سہی میں بہرحال اب صرف اُس ہی کا ہوں مجھ پر اُس کا فسوں ہے؟ فسوں ہی سہی! آپ مجھ کو کسی دن تو اپنا کہیں نا سہی...
  10. نوید ناظم

    رستہ، دیوار ہو گیا ہے

    مفعولن فاعلن فعولن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چلنا دشوار ہو گیا ہے رستہ، دیوار ہو گیا ہے مجھ کو یارو معاف کرنا دشمن سے پیار ہو گیا ہے صحرا کا فیض ہے کہ مجنوں اپنا بھی یار ہو گیا ہے دل کیوں سینے میں چُبھ رہا ہے کیوں مثلِ خار ہو گیا ہے لو کہتے تھے نہیں ہو گا عشق میری سرکار ہو گیا ہے! تم بھی بانٹو کہ...
  11. نوید ناظم

    کچھ اس دل میں نزاکت بھی تو ہے نا

    مفاعیلن مفاعیلن فعولن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ اس دل میں نزاکت بھی تو ہے نا پھر اوپر سے محبت بھی تو ہے نا یہ سچ ہے وہ وفا کرتا رہا ہے اُسے خود سے شکایت بھی تو ہے نا چلو اُس کو ستم گر کہہ دیا تھا تو پھر اس میں حقیقت بھی تو ہے نا بھلا ہم کو کہاں ملتا غم اتنا بس اپنوں کی عنایت بھی تو ہے نا وہ میرا ہوگیا...
  12. نوید ناظم

    مِرے اندر ہی میری ذات سے آگے بہت کچھ ہے

    مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہوئی ہے مات لیکن مات سے آگے بہت کچھ ہے یہ تو اک بات ہے اس بات سے آگے بہت کچھ ہے اگر تم میرے اندر سے گزر پاؤ تو دیکھو گے مِرے اندر ہی میری ذات سے آگے بہت کچھ ہے شبِ فرقت سے کوئی بچ نہ پایا آج تک ورنہ ہمیں لگتا ہے کے اس رات سے آگے بہت...
  13. نوید ناظم

    اپنی اپنی پریت

    اپنا اپنا پیار اے سب دا اپنی اپنی پریت کون کسے دا درد ونڈاوے کون کسے دا مِیت سچی گل تے سُولی ٹنگدے جگ دی وکھری رِیت کدی اندر دی بانگ وی سن کدی تاں اپنی نِیت کیوں راگ الاپیں کھار دے آ گائیے پیار دے گیت کالی رات ہجر دی سِر تے نئیں پیندی یار دی جھِیت ہُن کی اس توں شکوہ کرناں گئی بیتن والی بِیت
  14. نوید ناظم

    ہم پہ اترے ہیں الم اور طرح کے (فاعلاتن فعلاتن فعلاتن)

    زندگی دیتی ہے غم اور طرح کے جبکہ فطرت میں ہیں ہم اور طرح کے اب خدائی کے تقاضے وہ نہیں تھے سو تراشے ہیں صنم اور طرح کے تم سمجھ پاؤ یہ ممکن بھی نہیں ہے ہم پہ اترے ہیں الم اور طرح کے مجھ کو درپیش سفر بھی تو الگ تھا ہیں جو پاؤں میں ورم اور طرح کے کربلا ہی سے تعلق ہے ہمارا ہم پہ ہوتے ہیں کرم اور...
  15. نوید ناظم

    اگر آپ ہم کو ستانے لگیں گے (فعولن فعولن فعولن فعولن)

    اگر آپ ہم کو ستانے لگیں گے تو ہم اور بھی مسکرانے لگیں گے مِرے دل کے اندر جو لمحے میں اترا اُسے بھولنے میں زمانے لگیں گے اگر دیکھ لے اک جھلک اُن کی تُو بھی ترے ہوش بھی پھر ٹھکانے لگیں گے جب آرام ہم کو ذرا سا بھی آیا تو وہ دردِ دل کو بڑھانے لگیں گے قیامت تو برپا نہیں ہو گی کوئی اگر آپ وعدہ...
  16. نوید ناظم

    قریب کا چراغ بنیں؟

    اس سے پہلے کہ زندگی کا چراغ بجھ جائے، انسان کو چاہیے کہ یہ اپنی بساط کے مطابق روشنی بانٹ جائے۔ کوئی میٹھا بول' بول جائے یا کوئی کڑوی بات برداشت کر جائے۔ اس دنیا میں بے شمار واقعات ہو رہے ہیں مگر دیکھنا یہ ہے کہ ان سب میں ہمارا کردار کیا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم زندگی میں اور زندگی پہ صرف...
  17. نوید ناظم

    حفاظت

    کتاب پڑھتے ہوئے کبھی کبھار لفظ گِر پڑتے تھے گود میں بھی ہم نے اُٹھا کے رکھ دیا ہے کمپیوٹر کی طاق میں ان کو لفظ صرف محفوظ نہیں اب مقفل بھی ہیں کمپیوٹر سکرین ان کے معانی مکمل کھُلنے نہیں دیتی اب یہ لفظوں کو گود میں کبھی گِرنے نہیں دیتی!
  18. نوید ناظم

    شتر بے مہار ہم!

    زندگی میں آسانیاں بڑھتی جا رہی ہیں اورجینا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ رابطے کے ذرائع بڑھ گئے ہیں مگر دوریاں بھی بڑھ گئی ہیں۔ ہمارے پاس تیز رفتار کاریں تو ہیں مگر ہمارے پاس وقت نہیں ہے کہ ہم کسی کے پاس جا سکیں۔ انسان نے زندگی کی حفاظت کے لیے جو ایجادات کیں، وہی زندگی کے لیے خطرہ بن چکی ہیں۔ جب سے لوگ...
  19. نوید ناظم

    میری آنکھوں میں روانی ہے ابھی تک ( فاعلاتن فعلاتن فعلاتن)

    میری آنکھوں میں روانی ہے ابھی تک یہ وہ دریا ہیں کہ پانی ہے ابھی تک ہم نے چھوڑا تو نہیں اُس کی گلی کو روز جائیں گے، یہ ٹھانی ہے ابھی تک صرف ظاہر ہی کے کردار مِٹے ہیں پر پسِ پردہ کہانی ہے ابھی تک یادِ آباء ہے پھر کیا ہے، گرا دو! کیوں یہ دیوار پرانی ہے ابھی تک ہم کو جس بات پہ وہ چھوڑ گیا تھا...
  20. نوید ناظم

    جو وفا کا ارادہ تھا کیا اب نہیں؟ (فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن)

    جو وفا کا ارادہ تھا کیا اب نہیں؟ وہ جو آنے کا وعدہ تھا کیا اب نہیں؟ تجھ کو ہر ایک پر اعتبار آتا تھا دل! کبھی تُو بھی سادہ تھا کیا اب نہیں؟ ایک وہ دور تھا ہجر کا دکھ اُسے دوست! مجھ سے زیادہ تھا کیا اب نہیں؟ ہو گی کوئی خوشی عمر کی ناؤ میں یہ بھی سامان لادا تھا کیا اب نہیں؟ دوستو جس جگہ پھول...
Top