نتائج تلاش

  1. محمد فائق

    ایک غزل برائے اصلاح

    ظلمتِ شب کو رکھوں صبح کی تنویر کے ساتھ؟ اپنی تصویر لگاؤں تری تصویر کے ساتھ؟ صرف کوتاہی نہیں پہنچی مری تیرے حضور ایک احساسِ ندامت بھی ہے تقصیر کے ساتھ تاکہ اخلاص کی گہرائی کا اندازہ ہو اپنا دل بھیج رہا ہوں تجھے تحریر کے ساتھ بخت کو اپنے برا کیسے کہوں تو ہی بتا میری تقدیر جڑی ہے تری تقدیر کے...
  2. محمد فائق

    غزل برائے اصلاح

    #غزل کر چکا تو ضد بہت اب میرا کہنا مان لے دل مرے چھوڑ اس کی یادیں خود کو تنہا مان لے ہجر کی یہ رات کٹنے والی ہے لگتا نہیں کچھ چراغاں کرلے اور شب کو سویرا مان لے وہ تو کارِ بے وفائی چھوڑنے والے نہیں تھوڑا چین آجائے گا ان کو پرایا مان لے کاروبارِ عشق میں بھی منفعت کا دخل ہے؟ میں نہیں مانوں گا...
  3. محمد فائق

    نعت برائے اصلاح

    بروزِ حشر بخشش کا وسیلہ چاہتا ہوں میں نعتِ سیدِ لولاک ص لکھنا چاہتا ہوں خوشی کا دن ہے، جشنِ عیدِ میلاد النبی ص ہے مئے عشقِ نبی ص پینا پلانا چاہتا ہوں سر اپنا ان ص کی چوکھٹ پر ہمیشہ خم رکھوں گا بڑھے کونین میں میرا بھی رتبہ، چاہتا ہوں مدینہ دیکھنے کی آرزو ہے اس لیے بھی زمیں پر خلد کا نظّارہ...
  4. محمد فائق

    ایک سلام برائے اصلاح

    سلامی!صاحبِ توقیر ہوگا عزائے شہ ع میں جو دلگیر ہوگا بڑے مایوس ہوں گے تیر و خنجر مکمل سجدۂ شبیر ع ہوگا گرایا جائے گا دربارِ بیعت محل انکار کا تعمیر ہوگا کرے گا صبر ایسی کاروائی ستم پا بستہءزنجیر ہوگا یہ خوابِ بیعتِ شبیر ع، ظالم! یقیناً تشنہء تعبیر ہوگا اب ہوگی آمدِ عباس ع رن میں ہراساں...
  5. محمد فائق

    سلام برائے اصلاح

    زمینِ مقتل پہ گر کے خاکِ شفا ہوا ہے لہو یہ کس کا ہر اک مرض کی دوا ہوا ہے یہ کون ہے جس کے لب کو پانی ترس رہا ہے یہ کون ہے جس کے آگے دریا جھکا ہوا ہے فنا کے ماتھے پہ کس نے لکھی بقا کی تحریر یہ کس کی شہ رگ جس سے خنجر ڈرا ہوا بجھا ہوا یہ چراغ ہے کس کی خیمہ گہ کا قبیلۂ روشنی کا جو پیشوا ہوا ہے...
  6. محمد فائق

    غزل برائے اصلاح

    #غزل ہمارے ارادے علم ہو رہے ہیں اگرچہ ستم پر ستم ہو رہے ہیں ہمیں کھٹکھٹائے تھے بابِ عدالت ہمیں پر مقدمے رقم ہو رہے ہیں بڑھے جا رہے ہیں فرامینِ نفرت محبت کے احکام کم ہورہے ہیں کہاں آگیا ہے یہ دورِ سیاست جہاں بدچلن محترم ہو رہے ہیں سزا تو کجا دور کی بات ٹھہری یہاں مجرموں پر کرم ہو رہے ہیں...
  7. محمد فائق

    ایک رباعی برائے اصلاح

    رسوائی کے ماحول میں عزت نہ گری اتہام کے مابین حقیقت نہ گری ذکرِ شہِ والا کے تصدق میں مری گرتے ہوئے بازار میں قیمت نہ گری
  8. محمد فائق

    غزل برائے اصلاح

    آئینہ سامنے ہو، ہاتھ میں پتھر نہ رہے اب مرے شہر میں پہلے سے وہ منظر نہ رہے نفرت و بغض کا پھیلا ہے اندھیرا ہر سو بجھ گئے دیپ محبت کے، منور نہ رہے ہم نے بھی سیکھ لیا وقت سے لڑنا آخر ہم سراسیمہ بھی محتاجِ مقدر نہ رہے بڑھ چکا عرض بہت دائرۂ وحشت کا چاہ کر بھی کوئی اس حلقے سے باہر نہ رہے بک چکے...
  9. محمد فائق

    غزل برائے اصلاح

    عنوان تک پتہ نہیں طرزِ جہان کا کم بخت وقت آن پڑا امتحان کا منزل یقین کی، ہو میسر، بعید ہے کٹتا نہیں ہے مرحلہ وہم و گمان کا نفرت ضروری تو نہیں ترکِ وفا کے ساتھ اک اور انتخاب بھی ہے درمیان کا ہر سمت کیوں بلند ہے شورِ فساد، جب طالب ہر ایک شخص ہے امن و امان کا فائق! چھپا سکا نہ دلِ غم زدہ کا...
  10. محمد فائق

    نعت برائے اصلاح

    ہے اعلی و ارفع مقامِ محمد ص کلامِ خدا ہے کلامِ محمد ص زمیں، آسماں، مختصر دونوں عالم بنائے گئے ہیں بنامِ محمد ص سبھی کے لیے آپ ص ہیں وجہِ رحمت سبھی کے لیے ہے قیامِ محمد ص ہے درکار قرآن جیسی بلاغت رقم کیسے ہو احتشامِ محمد ص جہاں کی ہر اک شئے پہ مفروض ہیں یہ لحاظ و ادب، احترامِ محمد ص پریشاں...
  11. محمد فائق

    ایک سلام برائے اصلاح

    آج بالکل مختلف رن کی کہانی ہوئے گی تیغ و خنجر پر گُلو کی حکمرانی ہوئے گی ہوئیں گے تشنہ دہن پر اطمینان و پر سکوں مضطرب، بے چین دریا کی روانی ہوئے گی حرّیت کی نگہبانی ہوگی قیدوبند سے بے ردائی سے ردا کی پاسبانی ہوئے گی حسن ہوئے گا تصدق اک سیاہ فام پر شوق سے قرباں ضعیفی پر جوانی ہوئے گی اک ہنسی...
  12. محمد فائق

    غزل برائے اصلاح

    نہیں کر پائے میلا نفرت و کینہ مرے من کو یہی تو بات کرتی ہے پریشاں میرے دشمن کو نئے اک زاویے سے یاد کرتا ہوں تجھے ہر دن رکھا ہے اس طرح تازہ تری یادوں کے گلشن کو حقیقت نے اچانک بیچ میں آکر جگا ڈالا میں سپنے میں سنورتا دیکھ نے والا تھا جیون کو ہماری گمرہی کا کیا سب تھا تب سمجھ آیا جو دیکھا...
  13. محمد فائق

    غزل برائے اصلاح

    کیا خبر تجھ سے وابستگی کا سفر دوستی کا ہے یا دشمنی کا سفر اجنبی کر گیا اپنے ہی شہر میں کتنا ظالم ہے یہ مفلسی کا سفر تیرے دیدار کی کوئی نکلے سبیل کاش میں کرسکوں دلکشی کا سفر راہ میں بے خودی کی رہی کیفیت سخت دشوار تھا آگہی کا سفر میری آواز کو بھی ملے گی شناخت ختم ہونے کو ہے خامشی کا سفر...
  14. محمد فائق

    غزل برائے اصلاح

    ہنر حیات کا تدبیر کے نصاب میں تھا میں بد نصیبی سے قسمت کے پیچ وتاب میں تھا خود اپنے آپ سے آگاہی ہوسکی نہ مری مرا وجود خدا جانے کس سراب میں تھا یہ اور بات نہ تھا انتخاب میں شامل وگرنہ ذکر مرا بھی تری کتاب میں تھا اٹھایا جاتا نہ کیوں بزمِ شاد مانی سے میں مجلسِ غمِ دوراں کے انتخاب میں تھا رہا...
  15. محمد فائق

    غزل برائے اصلاح

    پاسِ دنیا ہے اب کہاں دل میں آگئیں بے نیاز یاں دل میں اپنی باتوں کا بھی یقیں نہ رہا ایسے اترا ترا بیاں دل میں میں نے سب کا گلا دبا ڈالا کوئی حسرت نہیں جواں دل میں دن ہوئے اعتماد کو گزرے رہے گیا ہے فقط گماں دل میں ہوچکا کل دیارِ دل ویران نہیں باقی کوئی مکاں دل میں آئے دن کیفیت بدلتا ہے کیسی...
  16. محمد فائق

    نظم (اچھے دن آنے والے ہیں) برائے اصلاح

    اچھے دن آنے والے ہیں اچھے دن آنے والے ہیں کس نے جھوٹا خواب دکھایا سچائی سے دور کیا کس نے خریدیں سب کی امیدیں کس نے کیے جھوٹے وعدے کون تھا یہ کہنے والا اچھے دن آنے والے ہیں اچھے دن آنے والے ہیں گرم ہوا بازارِ نفرت گرتا گیا بازارِ محبت شر پھیلا ہے بنامِ مذہب پانی پانی خود ہے سیاست ہندو...
  17. محمد فائق

    غزل برائے اصلاح

    تیری محبتوں پہ ریا کا گماں نہ ہو اے دل کسی پہ اتنا کبھی مہرباں نہ ہو یارب! کہیں تو راہ میں شیریں مقام ہو یوں تلخ زندگی کا سفر رائیگاں نہ ہو میں ہار مان لیتا ہوں قصہ کرو تمام آرائشو! اب اور کوئی امتحاں نہ ہو دل میں وجود خواہشِ دنیا نے لے لیا ڈر ہے کہیں یہ خواہش دنیا جواں نہ ہو اک عمر میں جفا...
  18. محمد فائق

    غزل برائے اصلاح

    حال دل کا عجیب کر بیٹھے یادِ ماضی قریب کر بیٹھے عشق سے دوستی پڑی مہنگی خود کو اپنا رقیب کر بیٹھے فکرِ فردا! ترے تعاقب میں حالتِ حال عجیب کر بیٹھے بابِ تدبیر تک گئے ہی نہیں بند بابِ نصیب کر بیٹھے زندگانی کا قرض دینا تھا اپنا سودا غریب کر بیٹھے دشمنوں! اب تمہارا کام نہیں کام ایسے حبیب کر...
  19. محمد فائق

    غزل برائے اصلاح

    سخت بے چین و بے قرار ہوں میں عیشِ دنیا! ترا شکار ہوں میں مجھ سے ہو کیسے فیصلہ کوئی ذات میں اپنی انتشار ہوں میں دیکھ لے جو خزاں تو شرما جائے ایسی اجڑی ہوئی بہار ہوں میں بھول جائیں گے سب مرا کردار کب کہانی میں بار بار ہوں میں کوئی آتا نہیں مری جانب گویا اجڑا ہوا دیار ہوں میں میری گنتی...
  20. محمد فائق

    غزل برائے اصلاح

    حلق کو فتح ملی خنجر کو رسوائی ملی ہم وہی ہیں جن کو مقتل سے پذیرائی ملی اسطرح کچھ مسکرائے تشنگی کی زد پہ ہم تشنگی اور آب کے مابین یکجائی ملی ہم تو انگاروں پہ چلنے کے لیے تیار تھے وہ تو کہیے کہ سفر میں آبلہ پائی ملی ہم نے کی جب عمر اپنی ساری زندانوں کی نذر حریت کو تب کہیں جا کر شناسائی ملی...
Top