نتائج تلاش

  1. محمد فائق

    برائے اصلاح

    خود سے انجان ہوگیا ہوں میں گویا بے جان ہوگیا ہوں میں دل کا محکوم، عقل کا دشمن یعنی نادان ہوگیا ہوں میں مجھ کو پرواہ نہیں کسی کی اب سچ ہے انسان ہوگیا ہوں میں اب تری یاد بھی نہیں آتی کتنا ویران ہوگیا ہوں میں زیست کا بار بھی نہیں اٹھتا اتنا ہلکان ہوگیا ہوں میں اور کیا دوں بھلا ثبوتِ وفا...
  2. محمد فائق

    برائے اصلاح

    صرف اور صرف اضطراب میں ہے زندگی مستقل عذاب میں ہے کیا گلہ اس سے بے وفائی کا نقص میرے ہی انتخاب میں ہے بے ہنر ہوں یہی ہنر ہے مرا کام میرے بھی دستیاب میں ہے دل! خرابہ ہے تُو، فضول تری جان اٹکی ہوئی گلاب میں ہے کیا بھروسہ ترے تبسّم کا ؟ پائیداری بھی کیا حباب میں ہے ؟ شیخ ایمان بچ گیا تیرا...
  3. محمد فائق

    غزل برائے اصلاح

    اسیرِ عشق ہوئے یعنی عاشقی کرلی یوں اپنے آپ سے ہی ہم نے دشمنی کرلی دیارِ قیس میں ہم رکھنے جارہے تھے قدم سو خاک سر پہ ملی چاک دامنی کرلی ہنر کی راہ تھی دشوار، بے ہنر ہی رہے کچھ اسطرح سے سہل ہم نے زندگی کرلی اے نیند تونے بہت دیر کردی آنے میں مرے خیالوں نے خوابوں نے خودکشی کر لی بیاں یہ...
  4. محمد فائق

    وقار خان کی خوبصورت غزل ۔

    وقار خان کی خوبصورت غزل ۔ کچھ علاقے آج بھی متھ سے جڑے مل جائیں گے کچھ گھروں میں اب بھی مٹی کے دیے مل جائیں گے رائیگاں ہوتے ہوئے لوگوں میں بھی بیٹھو کبھی فائدے نہ مل سکے تو تجربے مل جائیں گے اُس کی سانسیں آگ ہیں اور اُس کے لب آبِ حیات ایک چَکھّو گے تو دونوں ذائقے مل جائیں گے ہم میں وہ...
  5. محمد فائق

    ایک نظم برائے اصلاح

    زندگی میں پہلی بار کوئی نظم لکھنے کی کوشش کی ہے مجھے نظم لکھنے کے قائدے قوانین بالکل بھی پتہ نہیں، کیا اس میں بھی قافیے ردیف کی کوئی قید ہوتی ہے؟ میں تجھ کو بھول جاوں گا یہ امرِ غیر ممکن ہے یہ میرا دل تری یادوں کے سائے میں دھڑکتا ہے تو میرے دل میں رہتا ہے مری سانسوں میں بستا ہے یہ بس دعوی نہیں...
  6. محمد فائق

    غزل برائے اصلاح

    پھول کا گرچہ نہ بن، کانٹوں کا بن میرا گر بنتا نہیں غیروں کا بن جگنوؤں میں کم چمک ہے، ٹھیک ہے اے مری جاں کم سے کم تاروں کا بن پیروی ہوتی نہیں یاں عقل کی راہی تو ہرگز نہ ان راہوں کا بن کار گر پھر ہوگی یہ چارہ گری پہلے تو ہمدرد بیماروں کا بن زندگی خود ہی سمجھ آجائے گی بس شناسا گرتی دیواروں...
  7. محمد فائق

    ایک سوال

    کیا نہ کو دو حرفی باندھنا عیب ہے یا باندھ سکتے ہیں؟ اگر نہ کو دو حرفی باندھنا عیب نہ ہو تو دو حرفی نہ کس طرح لکھا جائے گا اس طرح (نا) یا پھر (نہ) اسی طرح؟ نہ سنا اس نے توجہ سے فسانا دل کا زندگی گزری ، مگر درد نہ جانا دل کا پیر نصیر بقدرِ پیمانۂ تخیّل سرور ہر دل میں ہے خودی کا اگر نہ ہو یہ...
  8. محمد فائق

    برائے اصلاح

    ہو نہ گمراہی اگر تو آگہی کچھ بھی نہیں آبلہ پائی نہ ہو تو رہبری کچھ بھی نہیں موت سے بچنے کی اک ناکام کوشش ہی تو ہے واقعاً اس کے علاوہ زندگی کچھ بھی نہیں اور کیا ہے بس انا کے حکم کی تعمیل ہے ورنہ دیکھا جائے تو یہ بے رخی کچھ بھی نہیں زور چلتا ہے کسی کا کیا بھلا تقدیر پر چل ہٹا یہ زائچے اور...
  9. محمد فائق

    غزل برائے اصلاح

    بات جب دوستی کی آتی ہے یاد تیری بہت ستاتی ہے عمر گزرے گی میری تیرے بغیر فکر یہ مجھ کو کھائے جاتی ہے ہجر ہے تو وصال بھی ہوگا بات یہ کب یقیں دلاتی ہے مرضِ عشق کی دوا ہی نہیں عارضہ یہ تو نفسیاتی ہے کوئی آساں نہیں سفر میرا زندگی روز یہ جتاتی ہے اور کچھ بھی نہیں ہے دنیا میں بے ثباتی ہی بے ثباتی...
  10. محمد فائق

    برائے اصلاح

    ہے اب بھی شمعِ حیات روشن کوئی اندھیرا نہیں ہوا ہے چمن ہے زد میں خزاں کی مانا، مگر خرابہ نہیں ہوا ہے ہے در حقیقت میں کون اپنا بھلا کہاں سے دکھائی دے گا چراغ خیمے کا جل رہا ہے ابھی اجالا نہیں ہوا ہے نہ آبلے پاوں میں ہیں تیرے نہ تجھ پہ شدت کی پیاس طاری تو وادی_عشق کا مسافر ہوا بھی ہے یا نہیں ہوا...
  11. محمد فائق

    برائے اصلاح

    دیارِ عشق میں جوں جوں قدم بڑھائے گا یقیں، گمان میں تبدیل ہوتا جائے گا یہ زندگی کا سفر بھی بڑا عجب ہے، جہاں وہی چلے گا جو گر کر بھی مسکرائے گا نہ جانے اب بھی یہ کیونکر خیال آتا ہے ستارہ میری بھی قسمت کا جگمگائے گا میں اپنے شہر میں ہی اجنبی سا لگتا ہوں تمہارا شہر مجھے کیسے راس آئے گا ہے اب...
  12. محمد فائق

    غزل برائے اصلاح

    بے وفا تجھ کو وفادار بتایا نہ گیا مجھ سے دریا کے کناروں کو ملایا نہ گیا عمر بھر عمر کو مصرف میں کوئی لا نہ سکا پھول مجھ سے کوئی صحرا میں کھلایا نہ گیا ان کی نظروں میں ہوں کافر بس اسی بات پہ میں ایک پتھر کو خدا مجھ سے بنایا نہ گیا یوں تو کھائی تھی قسم اس کو بھلا دینے کی اس کی یادوں کو بھی پر...
  13. محمد فائق

    چار مصرعے برائے اصلاح

    میرا دعوی ہے منکرِ توحید تجھ کو ہوجائے گا یقینِ خدا دیکھ لے گر تو اطمینانِ حسین ع عصر کے وقت روزِ عاشورہ
  14. محمد فائق

    برائے اصلاح

    ہاں یہی وجہِ افتخار ہوا عشق میں میں ذلیل و خوار ہوا اور ناکامیاں کچھ ہاتھ آئیں اور کچھ عشق پائدار ہوا رکھوں امید کیوں وفا کے عوض عشق تھوڑی_یہ کاروبار ہوا اس کی یادیں تو ساتھ ہے میرے کیسے کہہ دوں فراقِ یار ہوا بات محفل میں جب وفا کی چھڑی وہ نہ جانے کیوں شرمسار ہوا عمر بھر منتظَر...
  15. محمد فائق

    غزل برائے اصلاح

    کرتا ہے بے وفا سے وفا بار بار کیا؟ مجھ سا بھی آپ کا ہے کوئی جاں نثار کیا ؟ اے دل شکستگی سے ترا دل بھرا نہیں اترا نہیں ہے عشق کا اب تک بخار کیا؟ بعد از فراق چھوڑ دوں امیدِ وصل کیوں آتی نہیں ہے بعد خزاں کے بہار کیا؟ مجبور مفلسی نے کیا سوچنے پہ یہ لگنے لگا ہوں میں بھی غریب الدیار کیا؟ اے دل...
  16. محمد فائق

    برائے اصلاح

    کچھ تو امکاں ہوں کامرانی کے کیا ستم ہیں یہ زندگانی کے عشق سے ہم فرار کیا کرتے ہم تو قائل تھے جاں فشانی کے ہے خلاصہ یہ آپ بیتی کا ہم ستائے ہیں زندگانی کے یوں تڑپتے ہیں عشق کے مارے جیسے مچھلی بغیر پانی کے وہ محبت کو کیا سمجھ پاتے تھے گرفتار بدگمانی کے عشق، چاہت، وفا، جنوں، ایثار اب یہ دعوے...
  17. محمد فائق

    چند اشعار (تک بندی) برائے اصلاح

    ہمسفر تو اگر نہیں بنتا کوئی زادِ سفر نہیں بنتا چند لوگوں کے مان لینے سے راہزن راہبر نہیں بنتا زندگی بھر تراشتے رہیو سنگ شیشہ مگر نہیں بنتا آپ محلوں کی بات کرتے ہو ہم سے چھوٹا سا گھر نہیں بنتا ہم بھی عزت مآب کہلاتے کاش معیار زر نہیں بنتا
  18. محمد فائق

    غزل برائے اصلاح

    علم کی جہل پر کوئی سبقت نہیں علم کے ساتھ میں گر بصیرت نہیں ناپسندی کا لوگوں سے شکوہ نہ کر تجھ میں کیا خود پسندی کی خصلت نہیں؟ بن چکی ہے وفا باب تاریخ کا اب کسی کو کسی سے محبت نہیں اپنے اعمال بھی دیکھ واعظ ذرا بس ترا کام وعظ و نصیحت نہیں تیری باتیں ہیں فائق بڑے کام کی شاعری میں اگرچہ...
  19. محمد فائق

    غزل برائے اصلاح

    سایہء غربت مرے ہمراہ جب رہنے لگا شہر میں خود اپنے ہی میں اجنبی لگنے لگا گر چکا اس دور میں معیارِ انسانی بہت آج کے انساں کو انسانوں سے ڈر لگنے لگا خونِ آدم کس قدر ارزاں ہوا ہے کیا کہیں مثل پانی کے لہو انسان کا بہنے لگا ہے رہِ ذلت پہ اور کرتا ہے عزت کی دعا کیا سنا ہے گل سرِ صحرا کوئی کھلنے لگا...
  20. محمد فائق

    غزل)(تک بندی) برائے اصلاح

    نہ کیوں ہوں سرخرو پیشِ خدا ہم نہیں رکھتے تکبر و انا ہم دعاگو ہم ہیں دشمن کے بھی حق میں نہیں دیتے کسی کو بدعا ہم منافق کب ہیں جو رسوا نہ ہوتے ہیں آخر کو گرفتارِ وفا ہم اگر وہ ہمسفر ٹھرے ہمارا تو طے کر لیں یہ مشکل راستہ ہم تری مانند نہیں مجرم وفا کے یہ دعوٰی بھی نہیں... ہیں پارسا ہم بھلا...
Top