نتائج تلاش

  1. محمد فائق

    زباں پہ حرف ِ ملائم بھی، دل میں کینہ بھی

    زباں پہ حرف ِ ملائم بھی، دل میں کینہ بھی عجیب شخص ہے، اچھا بھی ہے، کمینہ بھی لہو تو خیر کہاں کا، یہ جاں نثار ترے بہائیں گے نہ کبھی بوند بھر پسینہ بھی وہاں گزار دیے زندگی کے اتنے برس جہاں نہ مجھ کو ٹھہرنا تھا اک مہینہ بھی جلا بروز ِ ازل جو بنام ِ رب ِ سخن اُسی چراغ سے روشن ہے میرا سینہ بھی درون...
  2. محمد فائق

    میں نے مانگا جسے دعاؤں میں

    میں نے مانگا جسے دعاؤں میں وہ بھی شامل ہوا خداؤں میں شاہزادوں کے دل کی دھڑکن تھی وہ جو بیٹھی ہے خادماؤں میں بات کرتے ہو اور نہ سنتے ہو تم نہ جانے ہو کن ہواؤں میں چھن چھنا چھن بھی اس کی چال میں ہے جھانجھریں بھی نہیں ہیں پاؤں میں اس نے یہ کہہ کے فون کاٹ دیا بارشیں ہو رہی ہیں گاؤں میں...
  3. محمد فائق

    خانہء خواب میں تعبیر کا امکان رکھا

    خانہء خواب میں تعبیر کا امکان رکھا ہجر کو سجدہ کیا وصل پہ ایمان رکھا عشق خود سے بھی چھپایا کہ سرہانے اپنے تیری تصویر نہیں، میرؔ کا دیوان رکھا روح پر حاوی نہ ہونے دی بدن کی خواہش عکس بے جلوہ رکھا، آئینہ حیران رکھا اپنا اجڑا ہوا دل دیکھ کے شرمندہ ہوں کس خرابے میں تری یاد کو مہمان رکھا میں نے...
  4. محمد فائق

    برائے اصلاح

    درد اتنا ملا لا دوا ہوگیا دل مرا تجھ سے جب آشنا ہو گیا یوں تو زندہ ہوں تجھ سے بچھڑ کر مگر رنج و تکلیف میں مبتلا ہو گیا اس قدر کچھ بڑھی حاجتِ مے کشی میرا گھر مستقل مے کدہ ہوگیا دے رہا تھا زمانے کو درسِ وفا جان پر جب بنی بے وفا ہوگیا ان کے ہاتھوں سے جونہی تراشا گیا پہلے پتھر تھا اب...
  5. محمد فائق

    برائے اصلاح

    جو دل خوشیوں کا سرچشمہ رہا ہے وہ درد و غم کا اب مسکن ہوا ہے نہیں ہم درد اب کوئی کسی کا معیارِ آدمیت گر چکا ہے جو جاں دینے کی باتیں کررہا تھا وہ ہی اب جان کا دشمن ہوا ہے تم اپنا عکس کس میں ڈھونڈتے ہو وہ اک پتھر ہے نا کہ آئینہ ہے میں کیوں دوں بے گناہی کی صفائی منافق سے مرا پالا پڑا ہے بہت مشکل ہے...
  6. محمد فائق

    غزل برائے اصلاح

    خطا گر ہے اس کی سزا بھی تو ہے نہیں درد ہی بس دوا بھی تو ہے یہ مانا محبت بھی نعمت ہے اک محبت میں لیکن سزا بھی تو ہے فقط حُسنِ ماہ کب ہے زیرِ بحث ترے حسن کا تذکرہ بھی تو ہے اگرچہ تری یاد ہے دل شکن مگر میری وجہِ بقا بھی تو ہے بلاتا ہوں میں آپ آتے نہیں نہ آنے کی کوئی وجہ بھی تو ہے؟ میں تنہا پریشاں...
  7. محمد فائق

    غزل برائے اصلاح

    منزلِ عشق کا رستہ ہے کہ صحرا کا کوئی آبلہ پا ہے یہاں کوئی تو تشنہ کوئی ناخدا تھا نہ کوئی نا ہی مسیحا کوئی کیسے ملتا مری کشتی کو کنارہ کوئی اب بھی گر تو نہیں آیا تو مجھے ڈر ہے کہیں داستاں کو تری کہے دے نہ فسانہ کوئی آبھی جا اے مرے مہتاب گھٹا سے باہر چاہنے والوں سے کرتا ہے کیا...
  8. محمد فائق

    خامشی خوب ہوئی نغمہ سرا میرے بعد

    میر صاحب کی زمین پر جناب فقیر عارف امام کی ایک خوبصورت غزل خامشی خوب ہوئی نغمہ سرا میرے بعد میرے بارے میں بہت بولا گیا میرے بعد وہ بگولہ تھا کہ میں تھا، یہ خدا جانتا ہے دشت میں ایسا تماشہ نہ ہوا میرے بعد ساغر و بادۂ و لب، ایک نظر آنے لگے نشّہ اس درجہ کسی پر نہ چڑھا میرے بعد قیدِ...
  9. محمد فائق

    برائے اصلاح

    غزل بے وفائی جو کی نہیں ہوتی جیت ہرگز تری نہیں ہوتی دل اگر ہوتا میرے قابو میں چاہتِ مے کشی نہیں ہوتی یوں تو روشن ہے زندگی کا چراغ ہاں مگر روشنی نہیں ہوتی راہِ الفت ہے یہ یہاں صاحب عقل کی پیروی نہیں ہوتی آبلہ پائی تو ضروری ہے رہبری سرسری نہیں ہوتی آدمی آدمی کا ہوتا گر قتل و غارت...
  10. محمد فائق

    قتل ہو جانا، بظاہر مری تقدیر نہ تھی(فقیر عارف امام)

    قتل ہو جانا، بظاہر مری تقدیر نہ تھی میرے ہاتھوں میں قلم تھا، کوئی شمشیر نہ تھی یہ الگ بات کہ آتے تھے نظر میرے نقوش ورنہ دھبہ تھا لہو کا مری تصویر نہ تھی میری پہچان وہی صفحۂِ سادہ ٹھہرا جس پہ کوئی بھی نشانی مری تحریر نہ تھی تم خطابت کا مزا ڈھونڈ رہے تھے جس میں مرثیہ تھا وہ مری جاں، کوئی...
  11. محمد فائق

    غزل برائے اصلاح ۔۔۔

    محترم الف عین صاحب،محترم محمد یعقوب آسی صاحب، و دیگر اساتذہ سے اصلاح کا متمنی ہوں غزل بے وفائی جو کی نہیں ہوتی جیت ہرگز تری نہیں ہوتی دل اگر ہوتا میرے قابو میں چاہتِ مے کشی نہیں ہوتی یوں تو روشن ہے زندگی کا چراغ ہاں مگر روشنی نہیں ہوتی راہِ الفت ہے یہ یہاں صاحب عقل کی پیروی نہیں ہوتی...
  12. محمد فائق

    نعت

    نگاہِ فکر روشن ہے طبیعت بھی منور ہے میں اس کا ذکر کرتا ہوں جو دوعالم سے بہتر ہے شفیعِ روزِ محشر ابجدِ شبیر و شبر ہے فضیلت جس کی درکِ حضرتِ عیسی سے باہر ہے حمید ہے زورِ مدحِ مصطفی کہ بادِ سر سر ہے ترا ہر لفظ جیسے کہ کوئی جبریل کا پر ہے میں کیوں جاؤں مدینہ میرا پیکر خود مدینہ ہے کہ ان کا روضہء...
  13. محمد فائق

    غزل برائے اصلاح

    وہ اپنی ہتک آپ بلانے کو چلے تھے جو نام و نشاں میرا مٹانے کو چلے تھے سچ کہیے تو آنکھوں میں بھی آنسو نہ بچے تھے اور تشنگی صحرا کی بجھانے کو چلے افسوس کہ وہ خود بھی تھے گمراہِ زمانہ جو راستہ بتلانے زمانے کو چلے تھے جن سے نہ ہوئی گل کی گلستاں میں حفاظت گلزار وہ صحرا میں کھلانے کو چلے تھے کچھ...
  14. محمد فائق

    برائے اصلاح

    نفرتیں ہم سے وہ چھپا نہ سکے حال دل کا نمایاں رخ پر تھا شاید ان کو خبر نہ تھی فائق چہرہ ہوتا ہے آئینہ دل کا
  15. محمد فائق

    برائے اصلاح

    اہلِ دنیا نے نہ دیکھا کبھی کردار مرا صرف دولت پہ ہی پرکھا گیا معیار مرا حق کا شیدائی ہوں ہر حال میں حق بولوں گا چاہے آجائے نہ کیوں سر تہِ تلوار مرا بے وفائی کا ضرور ان سے میں بدلا لیتا آڑے آتا نہ اگر جذبہء ایثار مرا ہے یقیناً ہی کسی گل کی گلستاں میں کمی ورنہ ویران نظر آتا نہ گلزار...
  16. محمد فائق

    تعارف تعارف

    میرا تعلق ہندوستان سے ہے ہندوستان میں بھی ایسی جگہ سے جہاں اردو زبان نہیں کے برابر بولی جاتی ہے میرا یہاں آنے کا مقصد یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ اردو ادب سے شناسائی حاصل کروں اور اپنی اردو و شاعری سے متعلق خامیاں دور کر سکوں
  17. محمد فائق

    ہدیہ ء نعت

    پھیلا تمہارے دم سے اجالا ہے یا نبی سورج تمہارا نقشِ کفِ پا ہے یا نبی جبریل آج کیوں نہ مرا ہم سخن بنے مدحت کا آپ کی جو ارادہ ہے یا نبی اَطہر کِیا ہے آیۂِ تَطہیر نے جسے بیشک وہ آپ ہی کا گھرانہ ہے یا نبی خالق گواہ صرف تصدق میں آپ کے خالق نے یہ جہان سنوارا ہے یا نبی جو دے گیا ہے دینِ خدا کو حیاتِ...
  18. محمد فائق

    غزل برائے اصلاح تمام سخن شناس احباب کی نذر

    کیونکہ دل پر تمہارا پہرا تھا میں بھری بھیڑ میں اکیلا تھا کام آئی کوئی دوا نہ دعا اس قدر زخم دل کا گہرا تھا ہم گلستاں سمجھ رہے تھے جسے وہ حقیقت میں ایک صحرا تھا یوں تو دیکھے کہیں حسین مگر منفرد ان میں ایک چہرہ تھا اف اسے با وفا سمجھ بیٹھے بے وفائی کا جس کی شہرہ تھا چونکہ باطل کی...
  19. محمد فائق

    دو شعر برائے اصلاح و تنقید

    گویا مثلِ خزاں تھا ہجر ترا زندگی سے بہار لوٹ گیا جس سہارے سے گامزن تھی حیات وہ سہارا ہی ہم سے چھوٹ گیا
  20. محمد فائق

    ایک غزل برائے اصلاح

    کیونکہ دل پر تمہارا پہرہ تھا میں بھری بھیڑ میں اکیلا تھا کام آئی کوئی دوا نہ دعا اس قدر زخم دل کا گہرا تھا ہم گلستاں سمجھ رہے تھے جسے وہ حقیقت میں ایک صحرا تھا یوں تو دیکھے کہیں حسین مگر منفرد ان میں ایک چہرہ تھا اف اسے با وفا سمجھ بیٹھے بے وفائی کا جس کی شہرہ تھا چونکہ باطل کی...
Top