اِن چراغوں کو تو جلنا ہے ہوا جیسی ہو
درد کی راتوں کو ڈھلنا ہے ہوا جیسی ہو
شوق کی آگ کو مدھم نہ کرو دیوانو
اپنی آواز کی لَو کم نہ کرو دیوانو
پھر سے سورج کو نکلنا ہے گھٹا جیسی ہو
اِن چراغوں کو تو جلنا ہے ہوا جیسی ہو
یہی مٹی تھی تمہیں جان سے بڑھ کر پیاری
آج اسی خاک سے ایک چشمۂ خون ہے جاری...
اک ذرا سُن تو مہکتے ہوئے گیسو والی
راہ میں کون دُکاں پڑتی ہے خوشبو والی
پھر یہ کیوں ہے کہ مجھے دیکھ کے رم خوردہ ہے
تیری آنکھوں میں تو وحشت نہیں آہو والی
دیکھنے میں تو ہیں سادہ سے خدوخال مگر
لوگ کہتے ہیں کوئی بات ہے جادو والی
گفتگو ایسی کہ بس دل میں اُترتی جائے
نہ تو پُرپیچ نہ تہہ...
قتلِ عشاق میں اب عذر ہے کیا بسم اللہ
سب گنہگار ہیں راضی بہ رضا بسم اللہ
میکدے کے ادب آداب سبھی جانتے ہیں
جام ٹکرائے تو واعظ نے کہا بسم اللہ
ہم نے کی رنجشِ بے جا کی شکایت تم سے
اب تمہیں بھی ہے اگر کوئی گِلا بسم اللہ
بتِ کافر ہو تو ایسا کہ سرِ راہگزار
پاؤں رکھے تو کہے خلقِ خدا بسم...
کل شب ہوئی کسی سے مُلاقات رقص میں
وہ کب تھی زندگی تھی مرے ساتھ رقص میں
اک دوسرے کو تھامے ہوئے بے سبب نہ تھے
محسوس کی ہے گردشِ حالات رقص میں
اُس کے بدن کی آنچ مرے دل تک آگئی
آوارہ ہو رہے تھے مرے ہاتھ رقص میں
وہ ایڑیوں پہ مثلِ زمیں گھومتی رہی
سات آسماں تھے رقص کناں ساتھ رقص میں...
بیادِ فیض
قلم بدست ہوں حیران ہوں کہ کیا لکھوں
میں تیری بات کہ دنیا کا تذکرہ لکھوں
لکھوں کہ تُو نے محبت کی روشنی لکھی
ترے سخن کو ستاروں کا قافلہ لکھوں
جہاں یزید بہت ہوں، حسین اکیلا ہو
تو کیوں نہ اپنی زمیں کو بھی کر بلا لکھوں
تیرے بغیر ہے ہر نقش "نقشِ فریادی"
تو پھول "دستِ صبا" پر...
دوست جب ٹھہرے چمن کے دشمنِ جانِ بہار
زخم دکھلائیں کسے پھر سینہ چاکانِ بہار
نشۂ احساسِ خوش وقتی نے اندھا کر دیا
برق بھی چمکی تو ہم سمجھے چراغانِ بہار
خون رُلواتے ہیں سب کو اپنے اپنے تجربے
وہ پشیمانِ خزاں ہوں یا پشیمانِ بہار
اب کے کچھ ایسی ہی بن آئی کہ ہم معذور ہیں
ورنہ کب پھیرا تھا...
غزل
خاموش ہو کیوں دادِ جفا کیوں نہیں دیتے
بسمل ہو تو قاتل کو دعا کیوں نہیں دیتے
وحشت کا سبب روزنِ زنداں تو نہیں ہے
مہر و مہ و انجم کو بجھا کیوں نہیں دیتے
اک یہ بھی تو اندازِ علاجِ غمِ جاں ہے
اے چارہ گرو، درد بڑھا کیوں نہیں دیتے
منصف ہو اگر تم تو کب انصاف کرو گے
مجرم ہیں اگر ہم تو...
نیٹگردی کے دوران ایک ویب سائٹ پر فراز کی یہ غزل دیکھی اور ایک مصرع یوں لکھا دیکھا:
دو صورتیں ہیں یارو دردِ فراق کی
اس طور اس کا وزن غلط لگا اور مزید گوگل کرنے پر نیٹپر جس جس ویب سائٹ پر بھی یہ غزل ملی ہر جگہ یہی غلطی دہرائی گئی تھی کہ ٹائپ کرنے والے سے یہ غلطی سر زد ہوئی ہو گی اور اس کے بعد...
کب یاروں کو تسلیم نہیں ، کب کوئی عدو انکاری ہے
اس کوئے طلب میں ہم نے بھی دل نذر کیا جاں واری ہے
جب ساز سلاسل بجتے تھے ، ہم اپنے لہو میں سجتے تھے
وہ رِیت ابھی تک باقی ہے ، یہ رسم ابھی تک جاری ہے
کچھ اہلِ ستم ، کچھ اہلِ حشم مے خانہ گرانے آئے تھے
دہلیز کو چوم کے چھوڑ دیا دیکھا کہ یہ پتھر بھاری ہے...
دل ٹھہرنے دے تو آنکھیں بھی جھپکتے جاویں
ہم کہ تصویر بنے بس تجھے تکتے جاویں
چوبِ نم خوردہ کی مانند سلگتے رہے ہم
نہ تو بجھ پائیں نہ بھڑکیں بہ دہکتے جاویں
تیری بستی میں تیرا نام پتہ کیا پوچھا
لوگ حیران و پریشان ہمیں تکتے جاویں
کیا کرے چارہ کوئی جب ترے اندوہ نصیب
منہ سے کچھ بھی...
نہ تیرا قرب نہ بادہ ہے کیا کیا جائے
پھر آج دکھ بھی زیادہ ہے کیا کیا جائے
ہمیں بھی عرض تمنا کا ڈھب نہیں آتا
مزاج یار بھی سادہ ہے کیا کیا جائے
کچھ اپنے دوست بھی ترکش بدوش پھرتے ہیں
کچھ اپنا دل بھی کشادہ ہے کیا کیا جائے
نہ اس سے ترک تعلق کی بات کر جائیں
نہ ہمدمی کا ارادہ ہے کیا کیا...
14 اگست 1954۔۔
آج تری آزادی کی ہے ساتویں سالگرہ،
چار طرف جگمگ جگمگ کرتی ہے شہر پنَہ،
پھر بھی تری روح بجھی ہے تقدیر سیَہ،
پھر بھی ہیں پاؤں میں زنجیریں، ہاتھوں میں کشکول،
کل بھی تجھ کو حکم تھا آزادی کے بول نہ بول،
آج بھی تیرے سینے پر ہے غیروں کی بندوق،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اے بھوکی مخلوق،
بیس...
لفظ کو پھول بنانا تو کرشمہ ہے فراز
احمدفراز کی زندگی اورشاعری کے مختلف پہلووں پر مبنی ایک خصوصی دستاویزی فلم (دورانیہ : 1 گھنٹہ 30 منٹ)
خیال سے حقیقت ، تحریر: امجد شیخ
احمد فراز اس دُنیا سے چلے گئے، یہ خبر سُن کر طبعیت پر ایسی اُداسی طاری ہوئی کہ بیان سے باہر ہے۔ اسی شام کو کچھ تصاویر...
شاعر
جس آگ سے جل اُٹھا ہے جی آج اچانک
پہلے بھی میرے سینے میں بیدار ہوئی تھی
جس کرب کی شدت سے مری روح ہے بےکل
پہلے بھی مرے ذہن سے دوچار ہوئی تھی
جس سوچ سے میں آج لہو تُھوک رہا ہوں
پہلے بھی مرے حق میں تلوار ہوئی تھی
وہ غم، غمِ دنیا جسے کہتا ہے زمانہ
وہ غم،مجھے جس غم سے سروکار نہیں تھا...
غزل
روئے نگار و چشمِ غزالاں کے تذکرے
گیسوئے یار و حرف وحکایت کے رات دن
وہ صبح و شام، دربدری ہم سنوں کے ساتھ
آوارگی میں سیر و سیاحت کے رات دن
رسوائیوں کی بات تھی، رسوائیاں ہوئیں
رسوائیوں کی عمر میں شہرت کے رات دن
ہر آرزو نے جامہِ حسرت پہن لیا
پھر ہم تھے اور گوشہِ عزلت کے رات دن...
کل پرسش احوال کی جو یار نے میرے
کس رشک سے دیکھا غمخوار نے میرے
بس اک ترا نام چپانے کی غرض سے
کس کس کو پکارا دل بیمار نے میرے
یا گرمئ بازار تھی یا خوف زبان تھا
پھر بیچ دیا مجھ کو خریدار نے میرے
ویرانی میں بڑھ کر تھے بیاباں سے تو پھر کیوں
شرمندہ کیا ہے در و دیوار نے میرے
جب شاعری...
کچھ ہم اس سے جان کر نہ کھلے
ہم پہ سب بھید تھے وگرنہ کھلے
جی میں کیا کیا تھی حسرت پرواز
جب رہائی ملی تو پر نہ کھلے
آگے خواہش تھی خون رونے کی
اب یہ مشکل کہ چشم تر نہ کھلے
ہو تو ایسی ہو پردہ دارئ زخم
حال دل کا بھی آنکھ پر نہ کھلے
سخت تنہا تھے اس کی بزم میں ہم
رنگ محفل کو دیکھ کر نہ...
کیوں طبیعت کہیں ٹھہرتی نہیں
دوستی تو اداس کرتی نہیں
ہم ہمیشہ کے سیر چشم سہی
تجھ کو دیکھیں تو آنکھ بھرتی نہیں
شب ہجراں بھی روز بد کی طرح
کٹ تو جاتی ہے پر گزرتی نہیں
شعر بھی آیتوں سے کیا کم ہیں
ہم نے یہ مانا وحی اترتی نہیں
اس کی رحمت کا کیا حساب کریں
بس ہم ہی سے حساب کرتی نہیں...
وہ عجیب صبحِ بہار تھی
کہ سحر سے نوحہ گری رہی
مری بستیاں تھیں دُھواں دُھواں
مرے گھر میں آگ بھری رہی
میرے راستے تھے لہو لہو
مرا قریہ قریہ فگار تھا
یہ کفِ ہوا پہ زمین تھی
وہ فللک کہ مشتِ غبار تھا
کئی آبشار سے جسم تھے
کہ جو قطرہ قطرہ پگھل گئے
کئی خوش جمال طلسم تھے...