ہاتھ اٹھائے ہیں مگر لب پہ دعا کوئی نہیں
کی عبادت بھی تووہ ، جسکی جزا کوئی نہیں
آ کہ اب تسلیم کرلیں تو نہیں تو میں سہی
کون مانے گا کہ ہم میں بے وفا کوئی نہیں
وقت نے وہ خاک اڑائی ہے کہ دل کے دشت سے
قافلے گذرے ہیں پھر بھی نقشِ پا کوئی نہیں
خود کو یوں محصور کر بیٹھا ہوں اپنی ذات میں...
تجھ سے بچھڑ کے ہم بھی مقدر کے ہو گئے
پھر جو بھی در ملا ہے اسی در کے ہو گئے
پھر یوں ہوا کہ غیر کو دل سے لگا لیا
اندر وہ نفرتیں تھیں کہ باہر کے ہو گئے
کیا لوگ تھے کہ جان سے بڑھ کر عزیز تھے
اب دل سے محو نام بھی اکثر کے ہوگئے
اے یادِ یار تجھ سے کریں کیا شکائیتیں
اے دردِ ہجر ہم بھی تو پتھر کے...
میں مر مٹا تو وہ سمجھا یہ انتہا تھی مری
اسے خبر ھی نہ تھی خاک کیمیا تھی مری
میں چپ ھوا تو وہ سمجھا کہ بات ختم ھوئی
پھر اس کے بعد تو آواز جابجا تھی مری
جو طعنہ زن تھا مری پوشش دریدہ پر
اسی کے دوش رکھی ھوئی قبا تھی مری
میں اس کو یاد کروں بھی تو یاد آتا نہیں
میں اس کو بھول گیا...
درد کی آگ بجھا دو کہ ابھی وقت نہیں
زخم دل جاگ سکے ، نشتر غم رقص کرے
جو بھی سانسوں میں گھلا ھے اسے عریاں نہ کرو
چپ بھی شعلہ ھے مگر کوئی نہ الزام دھرے
ا
یسے الزام کہ خود اپنے تراشے ھوئے بت
جذبہ کاوش خالق کو نگوں سار کرے
مو قلم حلقہ ابرو کو بنا دے خنجر
لفظ نوحوں میں رقم مدح رخ...
نظر بجھی تو کرشمے بھی روز و شب کے گئے
کہ اب تلک نہیں نظر آئے ھیں لوگ جب کے گئے
سنے گا کون تری بے وفائیوں کا گلہ
یہی ھے رسم زمانہ تو ھم بھی اب کے گئے
مگر کسی نے ھمیں ھمسفر نہیں جانا
یہ اور بات کہ ھم ساتھ ساتھ سب کے گئے
اب آئے ھو تو یہاں کیا ھے دیکھنے کیلیے
یہ شہر کب سے ھے ویراں وہ...
تجھے خبر بھی نہیں
کہ تیری اداس ادھوری
محبتوں کی کہانیاں
جو بڑی کشادہ دلی سے
ہنس ہنس کے سن رہا تھا
وہ شخص تیری صداقتوں پر فریفتہ
باوفا ثابت قدم
کہ جس کی جبیں پہ
ظالم رقابتوں کی جلن سے
کوئی شکن نہ آئی
وہ ضبط کی کربناک شدت سے
دل ھی دل میں
خموش چپ چاپ
مر گیا ھے
عجیب رت تھی کہ ہر چند پاس تھا وہ بھی
بہت ملول تھا میں ،اداس تھا وہ بھی
کسی کے شہر میں کی گفتگو ھواؤں سے
یہ سوچ کر کہ کہیں آس پاس تھا وہ بھی
ہم اپنے زعم میں خوش تھے کہ اس کو بھول چکے
مگر گماں تھا یہ بھی ، قیاس تھا وہ بھی
کہاں اب غم دنیا کہ اب غم جاں
وہ دن بھی تھے کہ ہمیں یہ راس تھا...
غزل
جس سمت بھی دیکھوں نظر آتا ہے کہ تم ہو
اے جانِ جہاں یہ کوئی تم سا ہے کہ تم ہو
یہ خواب ہے خوشبو ہے کہ جھونکا ہے کہ پل ہے
یہ دھند ہے بادل ہے کہ سایہ ہے کہ تم ہو
اس دید کی ساعت میں کئی رنگ ہیں لرزاں
میں ہوں کہ کوئی اور ہے دنیا ہے کہ تم ہو
دیکھو یہ کسی اور کی آنکھیں ہیں کہ میری...
خواب مرتے نہیں
خواب دل ھیں نہ آنکھیں نہ سانسیں کہ جو
ریزہ ریزہ ھوئے تو بکھر جائیں گے
جسم کی موت سے یہ بھی مر جائیں گے
خواب مرتے نہیں
خواب تو روشنی ھیں نوا ھیں ھوا ھیں
جو کالے پہاڑوں سے رکتے نہیں
ظلم کے دوزخوں سے بھی پھکتے نہیں
روشنی اور نوا اور ھوا کے علم
مقتلوں میں پہنچ کر بھی جھکتے...
'غزل "
جب یار نے رخت سفر باندھا، کب ضبط کا یارا اس دن تھا
ہر درد نے دل کو سہلایا، کیا حال ہمارا اس دن تھا
جب خواب ہوئیں اس کی آنکھیں جب دھند ہوا اس کا چہرہ
ہر اشک ستارہ اس شب تھا ،ہر زخم انگارہ اس دن تھا
سب یاروں کے ہوتے سوتے ،ہم کس سے گلے مل کے روتے
کب گلیاں...
نہ جانے ظرف تھا کم یا انا زیادہ تھی
کلاہ سر سے تو قد سے قبا زیادہ تھی
رمیدگی تھی تو پھر ختم تھا گریز اس پر
سپردگی تھی تو بے انتہا زیادہ تھی
غرور اس کا بھی کچھ تھا جدائیوں کا سبب
کچھ اپنے سر میں بھی شاید ہوا زیادہ تھی
وفا کی بات الگ پر جسے جسے چاہا
کسی میں حسن، کسی میں ادا زیادہ تھی...
آنسو نہ روک دامنِ زخمِ جگر نہ کھول
جیسا بھی حال ہو نگہء یار پر نہ کھول
جب شہر لُٹ گیا ہے تو کیا گھر کو دیکھنا
کل آنکھ نم نہیں تھی تو اب چشمِ تر نہ کھول
چاروں طرف ہیں دامِ شنیدن بچھے ہوئے
غفلت میں طائرانِ معانی کے پر نہ کھول
کچھ تو کڑی کٹھور مسافت کا دھیان کر
کوسوں سفر پڑا ہے ابھی سے...
قربتوں میں بھی جدائی کے زمانے مانگے
دل وہ بے مہر کہ رونے کے بہانے مانگے
ہم نہ ہوتے تو کسی اور کے چرچے ہوتے
خلقتِ شہر تو کہنے کو فسانے مانگے
یہی دل تھا کہ ترستا تھا مراسم کے لیئے
اب یہی ترکِ تعلق کے بہانے مانگے
اپنا یہ حال کہ جی ہار چکے لٹ بھی چکے
اور محبت وہی انداز پرانے مانگے
زندگی ہم...
چلو وہ عشق نہیں چاہنے کی عادت ہے
پہ کیا کریں ہمیں ڈوبنے کی عادت ہے
تو اپنی شیشہ گری کا ہنر نہ کر ضائع
میں آئینہ ہوںمجھے ٹوٹنے کی عادت ہے
میں کیا کہوں کہ مجھے صبر کیوں نہیں آتا
میں کیا کروں کہ تجھے دیکھنے کی عادت ہے
تیرے نصیب میں اے دل ! سدا کی محرومی
نہ وہ سخی، نہ تجھے مانگنے کی عادت ہے...
از عطاء الحق قاسمی
پاکستان ہماری امیدوں کا مرکز ہے اور اس کی محبت ہماری رگوں میں دوڑ رہی ہے 1947 سے ہم اس کے ساتھ الحاق کے لیے تڑپ رہے ہیں ، قربانیاں دے رہے ہیں۔سید علی گیلانی
جب شعر سفر کرجائےگا
وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
ناصر کاظمی، احمد ندیم قاسمی، جون ایلیا، خاطر، قتیل، فارغ، منیر نیازی ، احمد شاہ فراز۔آسمانِ سخن کی یہ ڈار کل پوری طرح بکھرگئی ۔ظفر اقبال اور انور شعور نامی دو بچھڑی کونجیں پر سمیٹے بیٹھی ہیں۔اور اب ہم فرحت عباس شاہ، وصی...
Brief Biography:
Ahmed Faraz (Syed Ahmed Shah) was born on January 14, 1931, in Naushehra,Pakistan. Faraz went to Islamia High School, Kohat for his early education. He got hisbachelors degree from Edward College, Peshawar. Later, he did his masters in Urdu and Persian from Peshawar...
ایک تحریر جو آج صبح عجلت میں اپنے بلاگ کیلیئے لکھی یہاں بھی دوستوں کے ساتھ شیئر کر رہا ہوں۔
---------
احمد فراز بھی اس دارِ فانی سے کوچ فرما گئے، اناللہ و انا الیہ راجعون۔
اقلیم سخن کا نامور شاعر جس نے ایک عرصے تک اردو شاعری کے چاہنے والوں کے دلوں پر راج کیا، بالآخر سمندر میں مل گئے، بقول...
نہ شب و روز ہی بدلے ہیں نہ حال اچھا ہے
کس برہمن نے کہا تھا کہ یہ سال اچھا ہے
ہم کہ دونوں کے گرفتار رہے، جانتے ہیں
دام دنیا سے کہیں زلف کا جال اچھا ہے
میں نے پوچھا تھا کہ آخر یہ تغافل کب تک؟
مسکراتے ہوئے بولے کہ سوال اچھا ہے
دل نہ مانے بھی تو ایسا ہے کہ گاہے گاہے
یار بے فیض سے ہلکا سا ملال...