یادیں ہیں اپنے شہر کی اہل سفر کے ساتھ
صحرا میں لوگ آئےہیں دیوار و در کے ساتھ
منظر کو دیکھ کر پس منظر بھی دیکھئے
بستی نئی بسی ہے پرانے کھنڈر کے ساتھ
سائے میں جان پڑ گئی دیکھا جو غور سے
مخصوص یہ کمال ہے اہلِ نظر کے ساتھ
اک دن ملا تھا بام پہ سورج کہیں جسے
الجھے ہیں اب بھی دھوپ کے ڈورے کگر کےساتھ...
یہ پیہم تلخ کامی سی رہی کیا
محبت زہر کھا کر آئی تھی کیا
مجھے اب تم سے ڈر لگنے لگا ہے
تمہیں مجھ سے محبت ہو گئی کیا
شکستِ اعتمادِ ذات کے وقت
قیامت آرہی تھی، آگئی کیا
مجھے شکوہ نہیں بس پوچھنا ہے
یہ تم ہنستی ہو، اپنی ہی ہنسی کیا
ہمیں شکوہ نہیں، ایک دوسرے سے
منانا چاہیے اس پر خوشی کیا
پڑے ہیں...
Limbo ایک دلچسپ ایڈوینچر اور ہلکی پھلکی دماغی گیم ہے۔ پزل قسم کا ایڈوینچر کہہ لیں آپ۔۔۔ خیر ہے دلچسپ۔۔۔ یہ گیم پہلے کمپیوٹرز کے لیے آئی تھی۔ اب گوگل پلے پر اینڈرائڈ دیوائسز کے لیے بھی میسر ہے۔
پلے گوگل کا ربط
چند تصاویر حاضر ہیں۔۔۔۔
خزاں کے آخری دن تھے
بہار آئی نہ تھی لیکن
ہوا کے لمس میں اک بے صدا سی نغمگی محسوس ہوتی تھی
درختوں کے تحّیر میں
کسی بے آسرا امید کی لَو تھرتھراتی تھی
گزرگاہوں میں اڑتے خشک پتّے
اجنبی لوگوں کے قدموں سے لپٹتے اور الجھتے تھے
تو اک بھولی ہوئی تصویر جیسے کوند جاتی تھی،
ہر اک منظر کے چہرے پر
لرزتی بے...
اچھا ہوا کہ دم شب ہجراں نکل گیا
دشوار تھا یہ کام پر آساں نکل گیا
بک بک سے ناصحوں کی ہوا یہ تو فائدہ
میں گھر سے چاک کر کے گریباں نکل گیا
پھر دیکھنا کہ خضر پھرے گا بہا بہا
گر سوئے دشت میں کبھی گریاں نکل گیا
خوبی صفائے دل کی ہماری یہ جانیے
سینے کے پار صاف جو پیکاں نکل گیا
ہنگامے کیسے رہتے ہیں...
زہر میں بجھے سارے تیر ہیں کمانوں پر
موت آن بیٹھی ہے جابجا مچانوں پر
ہم برائی کرتے ہیں ڈوبتے ہوئے دن کی
تہمتیں لگاتے ہیں جاچکے زمانوں پر
اس حسین منظر سے دکھ کئی ابھرنے ہیں
دھوپ جب اترنی ہے برف کے مکانوں پر
شوق خود نمائی کا انتہا کو پہنچا ہے
شہرتوں کی خاطر ہم سج گئے دکانوں پر
کس طرح ہری ہوں گی...
جانتی ہوں کہ وہ خفا بھی نہیں
دل کسی طور مانتا بھی نہیں
کیا وفا و جفا کی بات کریں
درمیاں اب تو کچھ رہا بھی نہیں
درد وہ بھی سہا ہے تیرے لیے
میری قسمت میں جو لکھا بھی نہیں
ہر تمنا سراب بنتی رہی
ان سرابوں کی انتہا بھی نہیں
ہاں چراغاں کی کیفیت تھی کبھی
اب تو پلکوں پہ اک دیا بھی نہیں
دل کو اب تک...
جب پھاگن رنگ جھمکتے ہوں تب دیکھ بہاریں ہولی کی
اور دف کے شور کھڑکتے ہوں تب دیکھ بہاریں ہولی کی
پریوں کے رنگ دمکتے ہوں تب دیکھ بہاریں ہولی کی
خم، شیشے، جام، جھلکتے ہوں تب دیکھ بہاریں ہولی کی
محبوب نشے میں چھکتے ہوں تب دیکھ بہاریں ہولی کی
ہو ناچ رنگیلی پریوں کا بیٹھے ہوں گل رو رنگ بھرے...
مقربین میں رمز آشنا کہاں نکلے
جو اجنبی تھے وہی ان کے راز داں نکلے
حرم سے بھاگ کے پہنچے جو دیرِ راہب میں
تو اہلِ دیر ہمارے مزاج داں نکلے
بہت قریب سے دیکھا جو فوجِ اعداء کو
تو ہر قطار میں یارانِ مہرباں نکلے
سکوتِ شب نے سکھایا ہمیں سلیقۂ نطق
جو ذاکرانِ سحر تھے وہ بے زباں نکلے
میانِ راہ کھڑے...
اے یقینوں کے خدا شہرِ گماں کس کا ہے
نور تیرا ہے چراغوں میں دھواں کس کا ہے
کیا یہ موسم ترے قانون کے پابند نہیں
موسم گل میں یہ دستور خزاں کس کا ہے
راکھ کے شہر میں ایک ایک سے میں پوچھتا ہوں
یہ جو محفوظ ہے اب تک یہ مکاں کس کا ہے
میرے ماتھے پہ تو یہ داغ نہیں تھا پہلے
آج آئینے میں ابھرا جو نشاں کس...
سر پہ کلاہِ کج دھرے زلف دراز خم بہ خم
آہوئے چشم ہے غضب، ترک نگاہ ہے ستم
چاند سے منہ پہ خال دو، ایک ذقن پہ رخ پہ ایک
اس سے خرابی عرب، اس سے تباہی عجم
وہ خمِ گیسوئے دراز، دامِ خیالِ عاشقاں
ہو گئے بے طرح شکار، اب نہ رہے کہیں کے ہم
عشوۂ دل گداز وہ، ذبح کرے جو بے چھری
ناز وہ دشمن وفا، رحم کی جس...
اس غزل کو ٹائپ کرنے کی وجہ ایک تو یہ تھی کہ یہ مشہور زمانہ غزل شاید ابھی تک پسندیدہ کلام کا حصہ نہیں بنی۔ کم از کم میری تلاش کے مطابق۔ اور دوسری وجہ اس کے اکثر اشعار کا بگڑی ہوئی حالت میں مشہور ہونا ہے۔ تابش کانپوری کی یہ غزل اصل حالت میں آپ احباب کی باذوق بصارتوں کی نذر ہے۔
تیری صورت نگاہوں...
کل شب دلِ آوارہ کو سینے سے نکالا
یہ آخری کافر بھی مدینے سے نکالا
یہ فوج نکلتی تھی کہاں خانۂِ دِل سے
یادوں کو نہایت ہی قرینے سے نکالا
میں خون بہا کر بھی ہوا باغ میں رُسوا
اُس گُل نے مگر کام پسینے سے نکالا
ٹھہرے ہیں زر و سیم کے حقدار تماشائی
اور مارِ سیہ ہم نے دفینے سے نکالا
یہ سوچ کے...
جسم کا بوجھ اٹھائے ہوئے چلتے رہیے
دھوپ میں برف کی مانند پگھلتے رہیے
یہ تبسم تو ہے چہروں کی سجاوٹ کے لیے
ورنہ احساس وہ دوزخ ہے کہ جلتے رہیے
اب تھکن پاؤں کی زنجیر بنی جاتی ہے
راہ کا خوف یہ کہتا ہے کہ چلتے رہیے
زندگی بھیک بھی دیتی ہے تو قیمت لے کر
روز فریاد کا انداز بدلتے رہیے
وے سائیں تیرے چرخے نے
اَج کت لیا کتن والی نوں
ہر اِک مُڈھا پچھی پایا
نہ کوئی گیا تے نہ کوئی آیا
ہائے اللہ اَج کی بنیاں
اِس چھوپے کتن والی نوں
تاک کسے نہ کھولے پِیڑے
نِسل پئے رانگلے پیڑھے
ویکھ اٹیرن باورا ہویا
لبھدا اَتن والی نوں
کسے نہ دِتی کسے نہ منگی
دُوجے کنی واج نہ لنگی
امبر ہس کے ویکھن...
اپنی مٹی کو سرفراز نہیں کر سکتے
یہ در و بام تو پرواز نہیں کر سکتے
عالم خواہش و ترغیب میں رہتے ہیں مگر
تیری چاہت کو سبوتاژ نہیں کر سکتے
حسن کو حسن بنانے میں مرا ہاتھ بھی ہے
آپ مجھ کو نظر انداز نہیں کر سکتے
شہر میں ایک ذرا سے گھر کی خاطر
اپنے صحراؤں کو ناراض نہیں کر سکتے
عشق وہ کار مسلسل ہے کہ...
پرائے پن کا ہے اب تک پڑاؤ لہجے میں
کہیں سے ڈھونڈ کے لاؤ، لگاؤ لہجے میں
یہ بات اپنی طرف سے نہیں کہی تم نے
عیاں ہے صاف کسی کا دباؤ لہجے میں
عد م توجہی گویا، مری کھلی اُس کو
تبھی در آیا ہے اتنا تناؤ لہجے میں
یہ گفتگو، کسی ذی روح کی نہیں لگتی
کوئی اتار نہ کوئی چڑھاؤ لہجے میں
زبان پر تو بظاہر...
چاہت کے صبح و شام محبت کے رات دن
دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن
وہ شوقِ بے پناہ میں الفاظ کی تلاش
اظہار کی زباں میں لکنت کے رات دن
وہ ابتدائے عشق وہ آغازِ شاعری
وہ دشتِ جاں میں پہلی مسافت کے رات دن
سودائے آذری میں ہوائے صنم گری
وہ بت پرستیوں میں عبادت کے رات دن
روئے نگاراں و چشمِ...
درد اور درد کی، سب کی ہے دوا ایک ہی شخص
یاں ہے جلاد و مسیحا بخدا ایک ہی شخص
حور و غلماں کے لیے لائیں دل آخر کس کا
ہونے دیتا نہیں یاں عہدہ برآ ایک ہی شخص
قافلے گزریں وہاں کیونکہ سلامت واعظ
ہو جہاں راہزن اور راہنما ایک ہی شخص
قیس سا پھر کوئی اٹھا نہ بنی عامرمیں
فخر ہوتا ہے گھرانے کا سدا ایک ہی...
ترے نزدیک آکر سوچتا ہوں
میں زندہ تھا کہ اب زندہ ہوا ہوں
جن آنکھوں سے مجھے تم دیکھتے ہو
میں ان آنکھوں سے دنیا دیکھتا ہوں
خدا جانے مری گھٹڑی میں کیا ہے
نہ جانے کیوں اٹھائے پھر رہا ہوں
یہ کوئی اور ہے اے عکس دریا
میں اپنے عکس کو پہچانتا ہوں
نہ آدم ہے نہ آدم زاد کوئی
کن آوازوں سے سر ٹکرا رہا ہوں...