اے دل نہ سن افسانہ کسی شوخ حسیں کا
ناعاقبت اندیش رہے گا نہ کہیں کا
دنیا کا رہا ہے دل ناکام نہ دیں کا
اس عشق بد انجام نے رکھا نہ کہیں کا
ہیں تاک میں اس شوخ کی دزدیدہ نگاہیں
اللہ نگہبان ہے اب جان حزیں کا
حالت دل بیتاب کی دیکھی نہیں جاتی
بہتر ہے کہ ہوجائے یہ پیوند زمیں کا
گو قدر وہاں خاک کی بھی...
یا رب مری حیات سے غم کا اثر نہ جائے
جب تک کسی کی زلف پریشاں سنور نہ جائے
وہ آنکھ کیا جو عارض و رخ پر ٹھہر نہ جائے
وہ جلوہ کیا جو دیدہ و دل میں اتر نہ جائے
میرے جنوں کو زلف کے سائے سے دور رکھ
رستے میں چھاؤں پا کے مسافر ٹھہر نہ جائے
میں آج گلستاں میں بلا لوں بہار کو
لیکن یہ چاہتا ہوں خزاں روٹھ...
مرنے کی دعائیں کیوں مانگوں جینے کی تمنا کون کرے
یہ دنیا ہو یا وہ دنیا اب خواہش دنیا کون کرے
جب کشتی ثابت وسالم تھی، ساحل کی تمنا کس کو تھی
اب ایسی شکستہ کشتی پر ساحل کی تمنا کون کرے
جو آگ لگائی تھی تم نے اس کو تو بجھایا اشکوں سے
جو اشکوں نے بھڑکائی ہے اس آگ کو ٹھنڈا کون کرے
دنیا نے ہمیں...
کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا
کہیں زمیں کہیں آسماں نہیں ملتا
تمام شہر میں ایسا نہیں خلوص نہ ہو
جہاں امید ہو اس کی وہاں نہیں ملتا
کہاں چراغ جلائیں کہاں گلاب رکھیں
چھتیں تو ملتی ہیں لیکن مکاں نہیں ملتا
یہ کیا عذاب ہے سب اپنے آپ میں گم ہیں
زباں ملی ہے مگر ہم زباں نہیں ملتا
چراغ جلتے ہیں...
دیر لگی آنے میں تم کو شکر ہے پھر بھی آئے تو
آس نے دل کا ساتھ نہ چھوڑا ویسے ہم گھبرائے تو
شفق دھنک مہتاب گھٹائیں تارے نغمے بجلی پھول
اس دامن میں کیا کیا کچھ ہے دامن ہاتھ میں آئے تو
چاہت کے بدلے میں ہم تو بیچ د یں اپنی مرضی تک
کوئی ملے تو دل کا گاہک کوئی ہمیں اپنائے تو
سنی سنائی بات نہیں یہ...
یہ غزل بہت سے گلوکاروں نے گائی ہے۔ اور زیادہ تر نے "دیواروں سے باتیں کرنا اچھا لگتا ہے" کر کے گائی ہے۔ جبکہ اصل شعر "دیواروں سے ملکر رونا اچھا لگتا ہے"۔ اور دوسری بات کہ چند احباب نے انٹرنیٹ کی دنیا میں اس کے چند اشعار (خاص کر مقطع) کو ناصر کاظمی سے منسوب کر رکھا ہے جبکہ یہ اصل غزل جناب...
اب کے سال پُونم میں جب تو آئے گی ملنے، ہم نے سوچ رکھا ہے رات یوں گزاریں گے
دھڑکنیں بچھا دیں گے، شوخ ترے قدموں میں، ہم نگاہوں سے تیری، آرتی اتاریں گے
تو کہ آج قاتل ہے، پھر بھی راحتِ دل ہے، زہر کی ندی ہے تو، پھر بھی قیمتی ہے تو
پَست حوصلے والے، تیرا ساتھ کیا دیں گے!، زندگی اِدھر آجا! ہم تجھے...
جب میرے راستے میں کوئی میکدا پڑا
مجھ کو خود اپنے غم کی طرف دیکھنا پڑا
معلوم اب ہوئی تری بیگانگی کی قدر
اپنوں کے التفات سے جب واسطا پڑا
ْ
اک بادہ کش نے چھین لیا بڑھ کے جامِ مَے
ساقی سمجھ رہا تھا سبھی کو گرا پڑا
ترکِ تعلقات کو اک لمحہ چاہیے
لیکن تما م عمر مجھے سوچنا پڑا
یوں جگمگا رہا ہے مرا...
اج میں تکیا اکھاں نال،
وچ گودڑی لکیا لال ۔
سر دے اتے پھٹا پرولا،
ٹھبی جتی گنڈھیا جھولا ۔
چھجے کپڑے ہوئے لنگارے،
وچوں پنڈا لشکاں مارے ۔
حسن نہ جاوے رکھیا تاڑ،
نکل آؤندا کپڑے پاڑ !
نہیں ایہہ انگر، نہیں لنگارے
ایہہ تاں پھٹّ نصیباں مارے ۔
یا پھر لٹن مارن ڈاکے،
وڑی غریبی سنھاں لا کے ۔
حسن اوس دا میں...
سسی سوہنی سکیاں بھیناں برہوں دے گھر جائیاں
وکھّو وکھ نصیبےدونویں دُھروں لکھا لیائیاں
ایہدے ہتھوں دور بریتہ ، اوہدی تھلیں وَہانی
اوہ پانی نوں سکدی مر گئی ، ایہہ موئی وچ پانی
ایہہ پانی وچ غؤطے کھائے ، اوہ پئی پھکے ریتاں
لیکھ اوہدے وچ ہُسڑ گُمیں ، بھاگ ایہدے وچ سیتاں
باگاں دے وچ کھیڈدیاں نے ،جیہا...
بے دِلی کیا یونہی دن گزر جائیں گے
صرف زندہ رہے ہم تو مر جائیں گے
رقص ہے رنگ پر رنگ ہم رقص ہیں
سب بچھڑ جائیں گے سب بکھر جائیں گے
یہ خراباتیانِ خردِ باختہ
صبح ہوتے ہی سب کام پر جائیں گے
کتنی دلکش ہو تم کتنا دل جُو ہوں میں
کیا ستم ہے کہ ہم لوگ مر جائیں گے
ہے غنیمت کہ اسرار ہستی سے ہم
بے خبر آئے...
زندگی ہماری بھی کیا اداؤں والی ہے
تھوڑی دھوپ جیسی ہے ، تھوڑی چھاؤں والی ہے
پھر لہو میں ڈوبا ہے ، آدمی کا مستقبل
یہ صدی جو آئی ہے ، کربلاؤں والی ہے
سب سے جھک کے ملتا ہے ، سب سے پیار کرتا ہے
یہ جو ہے ادا اس میں ، یہ تو گاؤں والی ہے
اس کے ذرے ذرے میں ، حسن ہے محبت ہے
یہ ہماری دھرتی تو...
جب ہے دریا تو عصا بھی چاہیے
خواہشوں کو راستہ بھی چاہیے
صرف راحت بے حِسی کا نام ہے
زندگی کو حادثہ بھی چاہیے
پاس ہو تم پھر بھی باقی ہے حجاب
اِک اِجازت کی ادا بھی چاہیے
سر بلندی ہے مقدر سے مگر
کچھ بزرگوں کی دعا بھی چاہیے
کیوں خزانے کی طرح محفوظ ہو
ذہن کو تازہ ہوا بھی چاہیے
پاؤں پھیلانے...
نہیں !
لوگوں سے کیا شکوہ
اور اِن لوگوں سے کیا شکوہ
یہ بے چارے تو ویسے بھی
یونہی عیسیٰ کی بھیڑیں ہیں
جنہیں کوئی بھی چرواہا
محبّت،امن اور تعمیر کا چارہ دکھا کر جس طرف بھی ہانک لے جائے
یہ جائیں گے
تمنّا کی "نظر بندی" تو یوں بھِی سخت ھوتی ہے
خیالوں اور نا پختہ ارادوں کی جہاں بھگدڑ مچی ہو
پھر وہاں کس...
دنیاں بھر دے کالے چٹے چور لٹیرے
سوچیں پے گئے - کی ہویا رات جے مکّ گئی
جے دھرتی دے کامیاں اگے گردن جھکّ گئی
کی ہووےگا ؟
رات نوں روکو
روشنیاں دے ہڑ دے اگے
اچیاں اچیاں کندھاں چقو
رات نوں روکو
ہڑ دی گونج تے گھوکر سن کے
تاجاں تے تختاں دی دنیاں کمب اٹھی اے
اک مٹھی اے
جدوں ایہناں دی لٹکھسٹّ نوں خطرہ...
راستی، راستائی اور راستینی تلاش کرنے والوں کے لیے یہ ایک پُر آشوب زمانہ ہے۔ دلوں میں تاریکی پھیلی ہوئی ہے۔ دلیلوں پر درہمی کی اُفتاد پڑی ہے اور دانش پر دیوانگی کے دورے پڑ رہے ہیں۔ نیکی اور بدی اس طرح کبھی خلط ملط نہ ہوئی تھیں۔ اِدھر یا اُدھر، جدھر بھی دیکھو، ایک ہی سا حال ہے۔ تیرہ درونی نے اپنی...
کل رات میرا بیٹے مرے گھر
چہرے پر منڈھے خاکی کپڑا
بندوق اٹھائے آن پہنچا
نوعمری کی سرخی سے رچی
اس کی آنکھیں جان گئی
اور بچپن کے صندل سے منڈھا
اس کا چہرہ پہچان گئی
وہ آیا تھا خود اپنے گھر
گھر کی چیزیں لے جانے کو
ان کہی کہی منوانے کو
باتوں میں دودھ کی خوشبو تھی
جو کچھ بھی سینت کے رکھا تھا
میں ساری...
دشتِ افسُردہ میں اک پھول کھلا ہے سو کہاں
وہ کسی خوابِ گریزاں میں مِلا ہے سو کہاں
ہم نے مدت سے کوئی ہجو نہ واسوخت کہی
وہ سمجھتے ہیں ہمیں اُن سے گلہ ہے سو کہاں
ہم تیری بزم سے اُٹھے بھی تو خالی دامن
لوگ کہتے ہیں کہ ہر دُ کھ کا صلہ ہے سو کہاں
آنکھ اسی طور برستی ہے تو دل رستا ہے
یوں تو ہر زخم...
فنا فی العشق ہونے کو جو بربادی سمجھتے ہو
تو پھر یہ طے ہے کہ تم دنیا کو بنیادی سمجھتے ہو
تمہیں ہم عشق کی سرگم سناتے ہیں، یہ بتلاؤ
فنا کے راگ سے واقف ہو، سم وادی سمجھتے ہو
کسی صاحبِ جنوں سے عقل کی تعریف سن لینا
نری رہزن ہے جس کو مرشد و ہادی سمجھتے ہو
اسی کی شوخیٔ تحریر کا ایک نقش ہوں میں بھی...
تم کہتے ہو
"وہ " پوچھے گا
"کتنی نمازیں پڑھیں تھیں کتنے روزے رکھے ؟"
اس کے علاوہ بھی کچھ باتیں تم کہتے ہو
"ایسا ہوگا، اتنا ہوگا، یوں یوں ہوگا "
جب سب کچھ معلوم ہے تو پھر ڈرتے کیوں ہو؟
پڑھو نمازیں!
رکھو روزے!
یہ جو سب کچھ تم کہتے ہو، اس کی مرضی پر ہے سارا
چاہے پوچھ لے یا نا پوچھے
اس کی نماز ہے، اس...