بَلیک آؤٹ
جب سے بے نور ہوئی ہیں شمعیں
خاک میں ڈھونڈتا پھرتا ہوں نہ جانے کس جا
کھو گئی ہیں میری دونوں آنکھیں
تم جو واقف ہو بتاؤ کوئی پہچان مری
اس طرح ہے کہ ہر اِک رگ میں اُتر آیا ہے
موج در موج کسی زہر کا قاتل دریا
تیرا ارمان، تری یاد لیے جان مری
جانے کس موج میں غلطاں ہے کہاں دل میرا
ایک پل...