ایک دکنی غزل
کچھ پہلے ان آنکھوں آگے کیا کیانہ نظارے گزرے تھا
کیا روشن ہو جاتا تھی گلی جب یار ہمارا گزرے تھا
تھے کتنے اچھے لوگ کہ جن کو اپنے غم سے فرصت تھی
سب پو چھیں تھے احوال جو کوئی درد کا مارا گزرے تھا
اب کہ خزاں ایسی ٹھہری وہ سارے زمانے بھول گئے
جب موسم گل ہر پھیرے میں آ آ کے دوبارہ گزرے...